Tuesday, June 10, 2014

تیرے عشق نجایا کرکے تھیا تھیا


آج حیدر جاوید سید نے اپنی وال پر عابدہ پروین ،عاطف اسلم کی آواز میں بابا بلھے شاہ کی کافی شئیر کی اور اسے اپنے سب دوستوں کے زوق کی نظر کیا اور میں نے جب اس کو سننا شروع کیا تو بے اختیار مجھ پر ایک جذب کی کیفیت طاری ہوگئی اور بے اختیار میرے دل میں رقص کرنے کی خواہش ابھری اور تھوڑی دیر کے لیے واقعی مین رقص کرنے لگ گیا بابا بلھے شاہ نے خواہش کی تھی کہ وہ ایسی جگہ چلا جائے جہان سب اندھے ہوں کہ نہ تو کوئی اس کی زات پہچانے اور نہ کوئی اس کو مانتا ہو،بلھے شاہ نے ایک انسان کی دوسرے انسان سے محبت اور تعلق میں عزت اور احترام کا رشتہ محض ان کی صفت انسانیت اور صفت آدمیت کی بنیاد پر ہونے کی خواہش کو اپنے من کے اندر موجزن ہوتے اس وقت دیکھا تھا جب اسے ایک عام سے کاشتکار عنائت سے محبت ہوگئی تھی اور اس سے یہ محبت عشق پر پہنچی اور جنون بن گئی تو بلھے اور عنائت کے درمیان اش عشق اور محبت کے آڑے بلھے شاہ اور عنائت کے درمیان دونوں کی زات ،حسب نسب اور ان کا سماجی سٹیٹس سے ابھرنے والے معاشرتی تعصبات آگئے تھے ،جس کے تحت بلذے شاہ کا عاشق ہونا اور شاہ عنائت کا معشوق ہونا ،اس کا مرید ہونا اور عنائت کا مراد ہونا ،بلھے کا راہی ہونا اور عنائت کا منزل ہونا اس لیے معیوب ٹھہرا خود بلھے شاہ کے اپنے گھر والوں نے اس کی سپردگی کو برا جانا کیوں کہ سید زات کا ہوکر بلھے نے ایک کاشتکار ارائیں کو اپنا مرشد اور اپنی مراد بنالیا تھا اس لیے تو بلھے کی شاعری میں جگہ جگہ اپنی زات کے سابقوں اور لاحقوں کو فنا کرنے کی بات اور تذکرہ ملتا ہے اور وہ زات اور ہستی کے ان سارے سابقوں اور لاحقوں کو فنا کرنے کی شدید خواہش کے ساتھ سامنے آتا ہے جس سے کسی قسم کا فخر اور امتیاز ابھر کر سامنے آتا تھا اور ہم اس کی اس خواہش کو بلھے کی نظم "بلھا کیہ جاناں میں کون"میں نظر آتی ہے یہ مشکل بلھے کے ساتھ ہی پیش نہیں آئی تھی بلکہ اس سے کہیں گھمبیر مشکل شاہ حسین کے سامنے کھڑی تھی جسے ایک ایسی زات کے ساتھ عشق ہوا تھا جو ایک طرف تو ہندؤ تھا دوسرا وہ عمر میں شاہ حسین کی عمر سے تین گنا کم عمر تھا اور ایسے عشق پر جو طوفان اس وقت معاشرے میں مچا اس کی شدت کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ شاہ حسین کو ایک مرتبہ بھرے مجمع میں آکے کہنا پڑا کہ مادھو لعل کا جسم اس کے لیے اس کی ماں کے جسم کی مثل ہے شاہ حسین اور مادھو لعل ساری عمر اپنے اپنے سابقوں اور لاحقوں کو ایک طرف رکھکر مذھب عشق کی پوجا میں مصروف رہے اور مر کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے رہے اور دونوں کی قبریں ایک ساتھ بن گئیں لیکن ملائیت اور سماج کے واعظوں کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا تو مادھو لعل کے مسلمانہوجانے کی روائت گھڑ لی گئی اور اس کا مسلم نام بھی ڈھونڈ نکالا گیا میاں میر لاہور میں آج ایک کونے میں ہیں ،شاہ حسین بھی حاشئے پر اور بلھے شاہ کے مزار پر ان کے عرس پر لٹھ برداروں کا اجتماع کس لیے ہے یہ ان کی میراث کی نفی ہےاور ان کی بغاوت سے خوفزدگی کی شدت کا اظہار بھی ہے جو آج بھی ملئیت کے وارثوں پر طاری ہے یہ ملائیت بار بار صوفیوں ،سادھوؤں،جوگیوں اور ملامتیوں سے شکت کھاتی رہی ہے اور اپنی جامد اور فرسودگی کے ساتھ مردنی کا شکار ہوتی رہی ہے اور پھر یہ ان سادھوؤں ،صوفیوں ،جوگیوں اور ملامتیوں کو مولانا اور رہبر شریعت بنانے کی کوشش کرتی رہی ہے جس طرح سے دربار والوں نے ننگے پیر ان صوفیوں کی قبروں پر حاضری دے کر وہآن بڑا سا دربار بناکر خانقاہ اور دربار کو ایک کرنے کی کوشش کی لیکن تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کوئی نہ کوئی شہزادہ خود دربار سرکار سے بغاوت کرکے ،کتابوں کو دریا میں بہاکر سب چھوڑ چھاڑ کر بن باس لے لیتا ہے اور نروان پالیتا ہے اور ملائیت کی جبر کے کوڈ پاش پاش کردیتا ہے اور قصر ملوکیت و آمریت کو گرادیتا ہے اور سارے جہان میں یہی کافی گونجنے لگتی ہے تیرا عشق نچایا کرکے تھیا تھیا

No comments:

Post a Comment