Saturday, August 15, 2015

پسماندگان گل حمید و قبیلہ ضیاع الحق کے نام


سنتا ہوں کہ آج تزویراتی گٹر کا ایک اور پاسدار شریان دماغ پھٹ جانے سے گزر گیا ہے اور تم سب اس کا غم غلط کرنے کے لئے چند اور بارودی جیکٹیں وعدہ حور دیکر گم کردہ نوجوانوں کو پہنانے میں مصروف ہو اور اپنے آباء کی سنت کو پورا کرتے ہوئے ان کو روشنی والوں میں پھٹ جانے کا ہدف رے رہے ہوں گے ویسے دیکھ لو کہ آج سوشل میڈیا پر لوگ اپنی نفرت اور کراہت کا برملا اظہار کررہے ہو ، تمہارے مردود کے متاثرین اتنے ہیں کہ حساب کرنا محال ہے اور یہ سب تمہارے گرو کھنٹال سے بے زار اور بے گانے نظر آتے ہیں تمہارے تزویراتی گٹر کا یہ پاسدار کیس قدر بے رحم فطرت کا مالک تھا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ حمید گل کی توجہ جب بھی کوئی اس خون ریزی ، تباہی ، بربادی کی طرف دلاتا جو " جہاد افغانستان " کی برکات سے پاکستان اور افغانستان والوں کو حصّے میں آئیں تھیں تو ان کا پہلا جواب تو یہ ہوتا تھا کہ بڑے مقاصد کے لئے یہ معمولی سی قیمت ہے اور دوسرا جواب " سازش اغیار " ہوتا تھا تو اس پر اگر کوئی گستاخ اسے آگے جاکر یہ سوال کربیٹھتا کہ " تزویراتی گہرائی " کی پالیسی بنانے والے اعلی دماغوں نے کیا " اغیار کی سازش " سے پیدا ہونے والے جہنم کی آگ سرد کرنے کے ۂئے " پلان بی و پلان سی " تیار نہیں کیا تھا ؟ تو موصوف بہت جزبز ہوتے تھے مگر ڈھیٹ بہت تھے اور جواب میں اس قدر فیوض و برکات " جہاد " (جو اصل میں گماشتگی ریگن و شاہ فہد کے اور کچھ نہیں تھا )بیان کرتے کہ جہادی جھوم جھوم جاتے تھے اور اس ملک میں دھشت گردی کی آگ میں جھلسنے والے ، ہیروئین زدہ شریانوں والے نوجوانوں کے زندہ لاشے اٹھائے بوڑھے کندھوں والے ہزاروں گھرانے اور لوتھڑوں کی شکل میں اپنے پیاروں کا جسم اکٹھا کرنے والوں اور پھر ان کے جنازوں کو پڑھنے کے دوران کسی خودکش کا نشانہ بننے والے اور پیاروں کے ٹکڑے سمیٹنے والوں کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی تھی ، میری مٹھیاں خود بخود بند ہوتیں تھیں ، سر سے اٹھنے والی غصّے کی لہر مرے پورے بدن میں گھر کرلیتی اور مرا دل کرتا کہ اس جیسوں کا گریبان پکڑوں اور پوچھوں کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ نسیم حجازی کے ناولوں کے جہادیوں کی تجسیم گری کرنے والو ! یہ کیسے جہادی فیوض و برکات تھے جنھوں نے افغانستان کو خون کا کیک بنایا ، وادی جنت نظیر میں چناروں کو ہی آگ نہ لگائی بلکہ ہر مزار کو بھی بدعت قرار دیکر آگ لگادی اور ممبئی کی سڑکوں پر عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، جوانوں کسی کو معاف نہ کیا اور پاکستان کا وہ کون سا علاقہ ہے جہاں مسجد و امام بارگاہ و مرکز احمدیہ و مزار و مندر و کلیسا ميں انھوں نے اپنے آپ کو پھاڑا نہ ہو حمید گل صاحب ! آج تم اپنے انجام کو پہنچے ، اور جو لوگ " خدا " پر یقین رکھتے ہیں ان کے ںزدیک جو بھی انسان اس دنیا سے جاتا ہے تو ایک نئی زندگی پاتا ہے - اگر وہ انسان نیک تھا ، اچھے اعمال کرتا تھا تو اس کے لئے " بہشتی برزخی زندگی ہوتی ہے " اور اگر وہ بد تھا ، شیطنت کا پیروکار تھا اور خلق خدا کو عذاب میں ڈالنے والا تھا تو اس کے لئے " جہنمی برزخ " کی عذاب والی ، دردناک زندگی منتظر ہوتی ہے اور وہ اپنے کئے کا پھل پاتا ہے تو اس یقین والوں کے نزدیک تو تمہاری دنیاوی زندگی کا باب بند ہوتے ہی تم پر " برزخی جہنمی زندگی " کا دروازہ کھل گیا ہے اور وہاں تم نے اپنے گاڈ فادر شاہ فہد ، ابن باز ، ریگن ، ضیاع الحق ، اختر عبدالشیطان وغیرہ سے ملاقات کی ہوگی اور اس دردناک عذاب کا مزا چکھ لیا ہوگا جو وہ کافی سالوں سے چکھ رہے ہوں گے اور یہآں تم نے ان کی نفرت انگیز نگاہوں کا سامنا بھی کیا ہوگا جن کو تمہارے پالے ہوئے نام نہاد جہادی استاد بہلا پھسلا کر بارودی جیکٹیں پہناتے تھے اور پھر ان سے حوروں کے ملنے کا وعدہ کرتے تھے ، ان کو ایسے باغات کے ملنے کا خواب دکھاتے تھے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں رواں دواں ہوتی ہیں اور ان سے " حزن اور غم " کے مٹ جانے کا وعدہ کرتے تھے لیکن یہ کیا ہوا کہ ان کو تو وادی " ویل " ملی ہے اور برزخ میں عذاب الیم ۔۔۔۔ کچھ تو اس قدر برگشتہ ہوں گے کہ اپنا پیپ و خون ملا تھوک تمہارے چہرے پر پھینکا ہوگآ اور آواران بس سروس کی طرح ڈالروں اور ریالوں کی دولت اور جائے داد تم پیچھے چھوڑ آئے تھے وہ سانپ اور بچھو بنکر تمہیں ڈسنے کو تیار ہوں گی کیونکہ خدا پر یقین رکھنے والوں کو ان کے خدا نے بتارکھا ہے کہ جو اللہ کی آیات کو چند پیسوں کے عوض بیچ ڈالتے ہیں اور اصلاح کے نام پر فساد کرتے ہیں ان کا انجام ہرگز اچھا نہیں ہوگا حمید گل ! یہاں بہت سے ایسے بھی ہیں جو عرف عام میں ملحد ہیں ، دھريے ہیں ، ان کو مابعدالطبعیات پر کوئی یقین نہیں ہے اور ان کے ہاں تو بس حرکت جدلیاتی ہے اور حقیقت دو متضاد حرکتوں سے ملکر بنی ہے اور ایک منفی چیز اپنی منفیت کو خود اس عالم مادہ میں ہی ظاہر کردیتی ہے ، ان کے نزدیک تمہاری " تزویراتی گہرائی " لوگوں کے سامنے ہی " کھائی " میں بدل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ کھائی لاکھوں لوگوں کو نگل گئی ، صرف 2001ء سے 2015ء تک اس نے 70 ہزار پاکستانی شہریوں کی جان لے لی اور یہ کھائی ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی ، گلوبل جہاد کی سب سے بہترین شکل داعش ، القائدہ ، باکو حرام ، طالبان کی شکل میں سامنے ہیں اور لوگ ان سب کے "جہاد کی برکات " دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور ان برکات کو لوٹنے والے اسقدر فیض یاب ہوتے ہیں کہ کہ لوتھڑوں میں بدل جاتے ہیں ، اعضاء سے معذور ہوتے ہیں اور دیکھو تو سہی جہاد کی برکات کہ آئی بی اے ، پنجاب یونیورسٹی ، کراچی یونیورسٹی ، میڈیکل کالجوں اور انجئیرنگ کالجوں سے فارغ التحصیل " سبیلنا ، سبیلنا - الجہاد الجہاد " کہتے ہوئے کبھی تو اسکول کے بچوں ميں پھٹ جاتے ہیں تو کبھی صفورا گوٹھ سے نکلنے والی ایک بس میں پھٹ جاتے ہیں ، ہزارہ ٹاؤن مين پھٹ جاتے ہیں تو کبھی صوفیا کے مزارات پر دکھی لوگوں پر برس جاتے ہیں اور کسی مندر کو آگ لگاتے ہيں تو کسی کلیسا میں پھٹتے ہیں حمید گل ! جن کو تم ملحد کہا کرتے تھے ، جن کو بے دین اشتراکی بتلاتے تھے اور سرخ عمارت کے اندر ٹارچر سیلوں ميں ، شاہی قلعے کے عقوبت خانوں میں جن سے تم شعور زندگی چھین لیا کرتے ، وہ تمہاری تمام تر درندگی اور بربریت کو سہن کرنے کے باوجود اپنی " انسانیت " سے دستبردار نہ ہوئے اور تم زرا اپنے " باایمان ، صاحبان جبّہ و دستار " کو دیکھو ، زرا ان اقبال کے " ستاری و غفاری و قہاری و جبروتی " کو دیکھو ، جہاں اللہ کا نام بلند ہو وہاں پھٹ جائیں ، جہآں یا علی و یا حسین کی صدا بلند ہو وہآں بارود کی بارش کریں ، جہاں سے یارسول اللہ کا نعرہ بلند ہو وہاں قیاقت برپا کردیں ، اور ایشور و گاڈ سے پکارنے والوں کو تو ویسے ہی نہ بخشیں اور اب تو یہ تمہارے گاڈ فادر آل سعود کے ہاں بھی پھٹتے ہیں ،گویا نسیم حجازی کے جن کرداروں کو تم اور تمہارے قبیلے نے جو تجسیم دی تھی وہ اب ان پر بھی پھٹتے ہیں جن کے ہاتھوں سے یہ ڈیٹونیٹر بنے تھے حمید گل صاحب ! آپ اور آپ کے "جہادی " بریگیڈ نے جن کی لاشیں مسخ کیں اور چپکے سے دفنادیں جن کو تم نے جمہوریت ، مساوات ، رواداری ، صلح کل ، امن ، شانتی ، تکثیر سے پیار کرنے کی سزا دی تھی ، وہ مصائب کے پہاڑ سہہ کر بھی کبھی بے گناہوں پر تو کیا گناہ گاروں کے درمیان جاکر بھی پھٹے نہیں تھے اور ماضی میں حسن ناصر ، نذیر عباسی ، رزاق جھرنا ، ادریس طوطی ، ایاز سموں ناصر بلوچ سب کے سب بہادری سے خود مصلوب ہوئے لیکن انھوں نے تمہارے گناہوں اور تمہاری بربریت کی سزا معصوموں کو نہیں دی تھی اور تمہارے " جہادی " تو اگر امریکی اڈوں ميں داخل نہ ہوپائیں تو اس اڈے کے قریب مصروف سڑک پر پھٹ جاتے ہیں اور وہاں سے گزرنے والے بچّے ، بوڑھے ، عورتیں ، نوجوان لوتھڑوں مین بدل جاتے ہیں ، پاکستان میں ہو تو زمہ داری قبول کرلی جاتی ہے اور افغانستان میں ہو تو خاموشی تاکہ تم جیسوں کو کہنے کا موقعہ ملے کہ نہیں " افغان طالبانی " تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ، حقیقت یہ ہے کہ جن جہادیوں کو تم نے مسلمانوں کو عظمت رفتہ کو پلٹانے کے لئے تیار کیا تھا انھوں نے تو " زوال کی زندگی " بھی ان سے چھین لی ، تم سکھ کا سانس تو کیا واپس کرتے ، دکھ والا سانس بھی چھین کر لے گئے سوویٹ روس ٹوٹ گیا مگر سوویت ریاستوں کے اشتراکیوں نے اکتوبر 1917ء کا بالشیویک انقلاب لانے کے لئے " خود کش " تیار نہ کئے ، اور اپنوں پر ہی زندگی " عذاب " نہ کی کہ وہ ان کی طرف واپس کیوں نہیں آتے ؟ حمید گل ! تم پیچھے کوئی نیک ورثہ چھوڑ کر نہیں گئے ، اسقدر کانٹے ہیں کہ کوئی ان سے زخمی ہونے سے بچے گا نہیں اور جس کو بھی ضرر پہنچے گی وہ تمیں اور تمہارے قبیلے کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرے گا حمید گل اور اے قبیلہ ضیاع الحق ! یاد رکھو ! تم نے پاکستان کو تکفیریت کا گڑھ بنایا اور تمہارے فسطائی بّچے جگہ جگہ فساد پھیلائے ہوئے ہیں ، تم نے جناح کی آروزؤں کا خون کیا ، تم نے اقبال کی تعبیر کو مسخ کیا اور پھر تم نے اس ملک کے بسنے والوں کے درمیان نفرتوں کے بیج بوئے کہ آج لوگ محض مخصوص نام پر قتل کردئے جاتے ہیں اور شناختی کارڑ پر شہر و صوبے کے نام پر مارے جاتے ہیں ، تم نے اس ملک میں کوڑھ کی کاشت کی ہے آج پورا ملک کوڑھیوں سے بھر گیا ہے اور تمہاری فسطائیت ، تکفیری جذام ملکی سرحدوں سے نکل کر چار دانگ عالم میں پھیل رہا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت والے ملکوں سے میں گھر اور بازا سونے اور مہاجر کیمپ آباد ہیں یہ سب تمہارے " جہاد " کی برکات و فیوض ہیں اور اس گہرائی کے کھائی میں بدل جانے کا نتیجہ جس کی تلاش میں تم نے کچے ذھنوں کو باردوی جیکٹس پہنائی ، راکٹ لانچر چلانا سکھایا اور دھماکہ خیز ڈیوائسز سے تباہی پھیلانا سکھائی اے پسماندگان حمید گل و قبیلہ ضیاع الحق ! میں تم سے حمید گل کے فنا ہوجانے پر کوئی تعزیت پیش نہیں کروں گا ، نہ ہی تم کو پرسہ پیش کروں گا ، بلکہ تم جسے خلا سمجھ رہے ہو ، اور بڑا دکھ خیال کررہے ہو ، اس سے کہیں زیادہ دکھ میں اس باپ کے لئے محسوس کرتا ہوں جو اوجڑی کیمپ سے کچھ فاصلے پر 10 اپریل 1988ء کے دن سے پہلے ایک بھری پری کالونی میں رہتا تھا اور جب 10 اپریل کو مزائیل اڑ اڑ کر اس کالونی کو ملبے میں بدل رہے تھے تو وہ اپنی بچی کو بچانے میں ناکام رہا تھا اور جب فرنٹئیر پوسٹ کا رپورٹر عادل نجم وہاں فوٹو گرافر کے ساتھ وہاں پہنچا تو وہ ایک جوتی لیکر اپنے ملبہ بنے گھر کے آگے بیٹھا اور عادل نجم کو دیکھ کر اس نے بس اتنا کہا تھا کہ بس یہ جوتی بطور نشانی رہ گئی ہے ، گڑیا تو نہیں رہی ، میں سوچتا تھا کہ یہ اکلوتی بیٹی کسی دن مری میت پر روئے گی اور مجھے یہ ارمان تو نہیں رہے گا کہ مجھ پر کوئی رونے والا بھی نہين ہوگا عادل نجم کہتا ہے اس روز اس نے اس کالونی میں کسی گریہ کناں ، کسی ماتم گزیدہ چہرے کا فوٹو اپنے فوٹو گرافر کو لیتے نہیں دیکھا ، اس میں بھی ہمت نہیں تھی اور مجھ میں بھی حوصلہ نہ تھا کہ کسی کو یہ کہہ دوں ! صبر کریں ، بہت افسوس ہوا میں کیسے اس قبیلہ یزید و شمر کو تعزیت پیش کروں کہ جس کے قبیلے والوں نے میرے کئی گبھرو نوجوان ، کئی معصوم بچوں کو چھین لیا اور ہمارے بوڑھوں ، عورتوں تک معاف نہ کیا محض اس بنا پر کہ ان کے نام روشنی والوں سے ، کساء والوں سے ، بیت والوں سے ملتے تھے ، ان کے ناموں سے جنت البقیع میں بے چھت و قبہ اور کنکریوں کے ساتھ رہنے والوں کی خوشبو آتی تھی اور ان کے ناموں سے باب العلم سے عقیدت جھلکتی تھی اور ان کے نام ان کو ندیم دوست ظاہر کرتی تھی

No comments:

Post a Comment