Sunday, July 5, 2015

ضیاء الحق کا مارشل ء اور پنجاب کی سیاست کے بدلتے رنگ


اس مرتبہ پانچ جولائی 1977ء کو جب پی پی پی کے ہمدردوں نے یاد کرنا شروع کیا تو کئی ایک لوگوں نے میاں منظور وٹو کی ایوان اقبال میں پی ایس ایف پنجاب کے تحت ہونے والی یوم سیاہ کی تقریب میں کی جانے والی تقریر کے دوران ، ان کی جانب سے کہے گئے ایک جملے کہ پانچ جولائی 1977ء کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تاریک ترین دور تھا پر خاصے جملے کسے ، ایک دوست نے اسے زرداری کا پی پی پی کے جیالوں سے بدترین مذاق قرار دے ڈالا اور کئی ایک نے اس موقعہ پر ایک پرانی تصویر ڈھونڈ نکالی جس میں میاں منظور وٹو اور میاں نواز شریف " مرد مومن ، مرد حق " کے دائیں اور بائیں شیروانیوں میں ملبوس کھڑے دکھائے گئے ہیں ، اس تصویر کے نیچے سوشل میڈیا میں مزاحیہ اور تنقیدی جملوں کی بھرمار ہے ، پی پی پی کے ہمدرد حلقوں میں اس طرح کی بحث اس تناؤ کا عکس بھی ہے جو حال ہی میں پی پی پی چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے والے اوکاڑا کے اشرف سوہنا ، صمصام بخاری ، منڈی بہاءالدین کے چودھری اکرام وغیرہ کے جانے سے پیدا ہوئی ، جانے والوں نےپہلے تو منظور وٹو کو پنجاب کی تنظیم میں آمر قرار دیا اور پھر انھوں نے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ پی پی پی مسلم لیگ نواز کی بی ٹیم بن گئی ہے ( شاید ان کو یہ احساس ہوا ہو یا نہ کہ منظور وٹو زرداری کی نہیں بلکہ اصل میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دریافت تھے اور بے نظیر بھٹو نے مسلم لیگ کے ایک مضبوط دھڑے کے ساتھ الائنس بنایا تھا نواز شریف کی طاقت کو توڑنے کے لئے ، زرداری نے تو بس یہ کیا کہ جونیجو لیگ سے چٹھہ لیگ اور پھر وٹو لیگ کے غیر موثر ہوجانے کے بعد وٹو کو پی پی پی میں شامل کرلیا اور ان کی پروفائل ایسی ہرگز نہیں ہے کہ پنجاب کی پاور پالیٹکس میں ان کو اہم کردار دئے جانے کے فیصلے کو یکسر غلط قرار دے دیا جائے ) بہرحال مجھے یہاں بس یہ بتانا ہے کہ 5 جولائی 1977ء کا دن جب پہلی مرتبہ طلوع ہوا تھا تو اس وقت جتنے بھی بھٹو مخالف سیاسی گروہ اور جماعتیں تھیں ان سب نے اس دن کو یوم نجات سے تعبیر کیا تھا ، بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں کی اگر ہم طبقاتی شیرازہ بندی کرلیں تو پی این اے بنیادی طور پر پنجاب کے اندر درمیانے طبقے کی پرتوں کی حمائت سے مستفید ہورہا تھا ، جس میں درمیانہ دکاندار ، بڑا تاجر اور اس کے ساتھ پاکستان کے چند بڑے اربن سنٹرز کے صعنتکار اس کی حمائت کررہے تھے جبکہ اس مارشل لاء کے لگنے تک پنجاب کا جو بڑا زمیندار طبقہ تھا اس کے زیادہ تر بڑے نام زوالفقار علی بھٹو کی پارٹی میں شامل ہوچکے تھے یا خاموش تھے ، وٹو تحریک استقلال کا حصّہ پی پی پی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے پر بنے تھے ، لیکن جب مارشل لاء لگ گیا اور اس کے بعد ضیاء نے پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات کو اولیت دی اور بلدیاتی پاور میں ضیاء الحق نے جو شہری اور اربن ٹاؤن کونسلز تھیں اور کارپوریشنز تھیں ان میں پی این اے کے دور میں پہلی مرتبہ پولیٹیسائز ہونے والے تاجر و صعنتکار طبقے کے لوگوں کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا اور ضلع کونسلز میں بھی اس نے بڑے زمینداروں اور روائتی بڑے گروپوں کی بجائے کئی جگہوں پر متوسط اور غیر معروف ناموں کو آگے بڑھایا تو پنجاب کی زمیندار کلاس کے بڑے گھرانوں کا ماتھا ٹھنکا لیکن وہ اس قابل نہیں تھے کہ ضیاء کے سامنے کھڑے ہوتے ، اس لئے خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہوگئے ، ضیاء نے جب 85ء کے غیر جماعتی انتخابات کرائے اور اس کے گورنر جنرل جیلانی نے صوبائی اور قومی اسمبلی میں پنجاب کی معروف زمیندار طبقے کی بجائے چند غیر معروف اور قدرے مقامی سطح کے زمیندار اور شہروں سے تاجر سامنے لیکر آئے تو اس سے ذھنی طور پر زمیندار اشراف کے گھرانے ملٹری رجیم سے دور ہوئے ، نواز شریف کے وزیر اعلی بننے سے جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کے کئی زمیندار گھرانے جو چیف منسٹر شپ پر دیہی اشراف کا حق سب سے زیادہ فائق خیال کرتے تھے اندرون خانہ ضیاء الحق کی سب سے بڑی حریف جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور بے نظیر بھٹو سے رابطے میں آگئے اس سے پہلے بھی بہت سارے ایسے لوگ تھے جو 5 جولائی 1977ء سے لیکر بہت بعد تک اس دن کو مبارک اور نجات کا دن خیال کرتے رہے ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات میں بدلاؤ نظر آنا شروع ہوگیا اور اس کی کئی وجوہات ہیں ، مثال کے طور پر اگر آپ میاں منظور وٹو سمیت پنجاب کی زمیندار اشرافیہ کے جنرل ضیاء الحق سے بدظن ہونے اور اس کے ضیاءالحق سے نفرت کا سبب اور ان کا پاکستان پیپلزپارٹی یا خود مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے طور پر الگ ضیاء الحق کی اشیر باد والوں یا بعد میں ضیاء کی باقیات کی لائن سے الگ چلنے کے اسباب پر نظر ڈالیں تو اس کا سبب سب سے بڑا یہ نظر آتا ہے کہ ضیاء الحق ، اس کے پنجاب میں گورنر غلام جیلانی اور بعد میں ملٹری اسٹبلشمنٹ نے پنجاب کی اس ٹریڈر اور صنعتکار طبقے کی پرتوں کو سیاسی نرسری میں پال کر ڈرائیونگ پوزیشن پر بیٹھا دیا ، جو پہلے کبھی پنجاب کی سیاست میں ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں بیٹھی تھی اور اس نوازے جانے کے عمل نے نواز شریف ایںڈ کمپنی کو ان سب کا قائد اور لیڈر بنایا ، یہ تضاد ضیاء الحق کے بلدیاتی انتخابات کے ایک نہ تھمنے والے سلسلے کے دوران ہی سامنے آگیا تھا , اس کی ایک مثال سید فخر امام کی ہے ، شہروں کی اس زمانے کی تمام بلدیات نئی ابھرنے والی ٹریڈنگ کلاس اور چیمبر آف کامرس کے پاس چلی گئی اور بلدیاتی پاور سے ابھرنے والوں نے پھر اسی فوجی جنتا کے بل بوتے پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب لڑے اور اس زمانے میں ایک بڑی ٹریڈنگ اور صنعت کار کلاس قومی و صوبائی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب بھی رہی جس نے وزرات اعلی کے منصب پر نواز شریف کے بٹھائے جانے کے عمل کو اپنے اقتدار اور پاور میں کمی کے طور پر لیا اور یہ زمیندار کلاس میں کچھ تو ایسے تھے جنھوں نے وقتی طور پر اپنے لئے اقتدار کی گاڑی میں پسنجر سیٹ پر قناعت کرلیا اور خاموش رہے لیکن کچھ ایسے تھے جنھوں نے ضیاء کی زندگی میں ہی اس سے بغاوت کی اور ایسے کئی کردار پی پی پی یا مسلم لیگ قیوم یا نوابزادہ نصراللہ کی پارٹی کا حصّہ بنکر ایم آر ڈی میں آئے ، جبکہ اس زمیندار سیاسی کلاس کا ایک بہت بڑا حصّہ 6 اپریل 1979ء کو بے نظیر بھٹو کی ملک واپسی کے بعد سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کے ساتھ رابطے میں آیا اور بے نظیر بھٹو نے اس کلاس کے غیر جماعتی اسمبلی میں بیٹھے اراکین اور یہاں تک کہ ضیاء الحق کی کابینہ میں موجود کئی وزراء سے رابطے کئے ، ان میں سید یوسف رضا گیلانی بھی تھے اور اگر کسی کو یاد ہو تو بے نظیر بھٹو نے کئی ایک غیر جماعتی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ایک اجتماع سے ایک ہوٹل میں خطاب بھی کیا تھا ، محترمہ بے نظیر بھٹو چاہتی تھیں کہ پی پی پی سے رابطہ کرنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی جب وہ کہیں اسمبلی سے استعفی دے ڈالیں ، مجھے یوسف رضا گیلانی نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ وہ جب بے نظیر بھٹو کے ساتھ رابطے میں آئے تو انھوں نے کابینہ سے مستعفی ہونے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن بی بی نے ان کو روک دیا ، غالب امکان یہ ہے کہ ضیاء الحق کی کابینہ کے فصیلوں پر جو اطلاعات بے ںظیر بھٹو تک اس زمانے میں آیا کرتی تھیں ان کا ایک سورس سید یوسف رضا گیلانی بھی تھے وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے زمیندار سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد ضیاہ کے بعد 88ء سے لیکر 90ء تک نواز شریف کی قیادت میں چلتی رہی لیکن 90ء کے بعد ایک بڑی تبدیلی آئی جب مسلم لیگ پر کنٹرول کے لئے محمد خان جونیجو کے حامی گروپ نے کم از کم پنجاب کی وزرات اعلی پر کوئی سمجھوتہ کرنے سے انکار کرڈالا اور انھوں نے نواز شریف کی پنجاب میں بالادستی کو چیلنج کیا ، اس زمانے میں حامد ناصر چٹھہ ، میاں منظور وٹو ، اللہ یا ہراج سمیت پنجاب کی زمیندار اشراف کی ایک اور پرت جونیجو لیگ کے نام سے اکٹھی ہوگئی اور بے نظیر بھٹو کے لئے یہ بہت نادر موقعہ تھا ، اسی زمانے میں مخدوم الطاف حسین ، شاہ محمود قریشی اور کئی اور نام پی پی پی میں شامل ہوگئے اور یہ نواز شریف مخالف زمیندار کلاس کا ایک سیکشن تھا جس کی حمائت یا پی پی پی میں شمولیت نے پی پی پی کو پنجاب کے اقتدار سے نواز شریف کو باہر کرنے کا موقعہ فراہم کیا ، عارف نکئی سے لیکر منظور وٹو تک یہ پہلی مرتبہ 77ء کے بعد ہو تھا کہ پی پی پی پنجاب کے اقتدار کو انجوائے کررہی تھی ، اس میں نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ اور اسحاق خان سے لڑائی کا ہاتھ بھی تھا اور جب 96ء میں اسٹبلشمنٹ کی کوششوں سے بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اسٹبلشمنٹ نے نواز شریف کو دو تہائی مینڈیٹ دلوایا اور پی پی پی نے جونیجو لیگ کی صورت یا اپنی پارٹی کے اندر جو طاقت زمیندار اشراف سیاست دانوں کے زریعے سے حاصل کی تھی وہ اسٹبلشمنٹ نے ہی غیر موثر ایسے کی کہ اکثر ان میں انتخاب ہار گئے اور پی پی پی کے پاس تو ایک بھی سیٹ قومی اسمبلی کی پنجاب سے نہ تھی ، وہ زمانہ پنجاب میں پی پی پی کے اوپر خاصی مشکل کا تھا ، اس زمانے میں بھی بے نظیر بھٹو نے جونیجو لیگ ، پی ڈی پی ، پاکستان عوامی تحریک ، جمعیت اہلحدیث ، اور چند اور جماعتوں کو ساتھ ملاکر عوامی اتحاد بنایا تھا اور یہ ایک طرح سے اینٹی نواز شریف الائنس تھا ، اس میں جو زمیندار اشراف پی پی پی یا چھٹہ ليگ کی شکل میں کھڑے تھے وہ اسٹبلشمنٹ مخالف نہیں تھے ، ان کو تو بس اقتدار میں اہم کردار چاہئیے تھا ، اس زمانے میں خود مسلم لیگ نواز کے اندر نواز شریف کی جانب سے شہباز شریف کو چیف منسٹر بنائے جانے کی وجہ سے اور اقتدار کی ساری قوت ماڈل ٹاؤن منتقل ہونے اور شہباز شریف کی جانب سے اپنے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو بیوروکریسی پر فوقیت نہ دینے اور بیوروکریسی کے زریعے سے پنجاب کے اضلاع کو کنٹرول کرنے کی پالیسی نے رنجیدہ کررکھا تھا ، چودھری برادران باقاعدہ طور پر نہ صرف پنجاب کی چیف منسٹر شپ کے طاقتور حریف تھے بلکہ ان کے گرد یہ ناراض اراکین اکٹھے بھی ہورہے تھے ، اس زمانے میں لگتا ہے کہ بے نظیر بھٹو اس اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھانے کا سوچ رہی تھیں ، خود چودھری شجاعت جوکہ وزیر داخلہ تھے اور چودھری برادران کی بھٹو خاندان سے دوری کا سبب یہ تھا کہ وہ خیال کرتے تھے کہ چوہدری ظہور اللہی کا قتل بھٹو خاندان نے کرایا جبکہ بے نظیر بھٹو کا چوہدریوں سے دوری کا سبب چوہدری ظہور اللہی کو بھٹو کی پھانسی کا مرکزی کردار خیال کرنے کی وجہ سے تھا ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ چودھری شجاعت نے دانشمندی کا ثبوت دیا اس وقت جب نواز شریف سیف الرحمان کے زریعے سے پی پی پی کی قائد بے نظیر بھٹو کو جیل میں ڈالنے کے درپے تھے اور آصف علی زرداری کے ساتھ جیل میں انتہائی ناروا سلوک ہورہا تھا تو چوہدری شجاعت نے بے ںظیر بھٹو کو نواز شریف کے عزائم بارے بتایا اور وہ ملک سے باہر چلی گئیں ، ہو سکتا تھا کہ آگر 12 اکتوبر 1999ء کا مارشل فوج نہ لگاتی اور اسٹبلشمنٹ روائتی طریقے سے نواز شریف کی حکومت گراتی کہ جس کا راستہ روکنے کے لئے نوآز شریف 14 ویں اور 15 ویں ترمیم لارہے تھے تو سب سے بڑا اینٹی نواز شریف مسلم لیگی دھڑا چوہدری شجاعت کی قیادت میں بنتا اور اس کا اتحاد پی پی پی سے ہوتا ،مگر حالات بدلے جنرل مشرف نے مائنس نواز شریف کی بجائے مانئس ٹو فارمولہ اپنایا اور چوہدری شجاعت کے حوالے پورا پنجاب کرڈالا اور اس زمانے میں پی پی پی کے ساتھ جن لوگوں نے ڈیفیکشن کی ان میں زیادہ تر لوگ وہ تھے جو پوسٹ 90ء کے بعد پی پی پی کے قریب آئے یا اتحادی بنے تھے ، اور جب پنجاب کا پورا اقتدار مل رہا ہو اور مسلم لیگ نواز بر لب مرگ نظر آرہی ہوتو ایسے میں کسی کو کیا پڑی تھی کہ وہ پی پی پی کو ثانوی شراکت دار بناتا ، ویسے بھی اسی زمیندار اشراف کا ایک حصّہ پی پی پی کے اے آرڈی بنانے کے فیصلے کی وجہ سے اور نواز ليگ سے اتحاد کے سبب پی پی پی سے اپنے اس اتحاد کا خاتمہ کربیٹھا تھا جس کا آغاز 90ء کے بعد ہوا تھا اور یہ جو پوسٹ 1999ء ہے اس میں یہ نواز شریف اور ان کے ہمنواء تھے جنھوں نے نہ صرف جنول مشرف کے مارشل لاء کو سیاہ ترین کہا بلکہ انھوں نے اپنے مربی ضیاء الحق کی آمریت کی بھی مذمت کرنا شروع کردی ، شہباز شریف کو جالب پسند آگئے اور وہ ماؤزے تنگ کی جیکٹ اور پی کیپ پہن کر خود کو ماؤزے تنگ ثانی خیال کرنے لگے اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پھر حالات اور واقعات نے ایسا رخ پلٹا کہ جو کردار کسی زمانے میں جونیجو ليک ادا کررہی تھی وہ آج مسلم لیگ ق کررہی ہے اور فرق صرف اتنا کہ اس بڑے زمیندار دھڑے کی قیادت چوہدری شجاعت کے پاس ہے ، ایک اور بھی پیش رفت اسی دوران ہورہی ہے کہ پنجاب میں نواز شریف کی سے ناراض نئے اور پرانے کئی سیاسی خاندان متحدہ مسلم ليگ بنانا چاہتے ہیں اور یہ متحدہ مسلم ليگ فکشنل ، مشرف لیگ اور حامد ناصر چٹھہ کے گروپ پر مشتمل ہوسکتی ہے ، یہ دونوں دھڑے یعنی ق لیگ اور مبینہ متحدہ لیگ پریشر گروپ کے طور پر سامنے آتی نظر آتی ہیں ، جبکہ ڈرائیونگ سیٹ پر کون سی پارٹی بیٹھے گی ، اس کے لئے تو فی الحال سب سے تیز رفتار پاکستان تحریک انصاف ہے ، جس پر ملٹری اسٹبلشمنٹ اور سول نوکر شاہی کے کئی ایک دھڑوں کی نظر کرم بھی ہے ، پی پی پی اگرچہ ابھی میدان سے باہر نہيں ہوئی لیکن اسے پنجاب میں معرکہ سر کرنے کے لئے ایک طرف تو اپنی پارٹی کے ڈھانچے کی اوورہالنگ کرنا ہے تو دوسری طرف اسے ایسے کارڑ بھی کھیلنا ہیں جس سے وہ اینٹی نواز شریف پریشر گروپوں کے ساتھ کوئی موثر اتحاد بناسکے ، بلاول بھٹو پنجاب آرہے ہیں ، لیکن ان کو شاید پارٹی کے تجربہ کار اور مسلم ق کے گھاگ سیاست دان چوہدری شجاعت یہ مشورہ بھی دیں گے کہ فوج سے لڑائی بنانے کی بجائے وہ نواز شریف سے لڑائی بنائیں تو پنجاب میں پی پی پی کی واپسی کا سامان پیدا ہوسکے گآ ، اور پی پی پی کو اس وقت اینٹی نواز شریف زمنیدار اور ات تو کئی ایک حریف کمرشل بزنس مین کی بھی حمائت کی اشد ضرورت ہے ، پی پی پی کے جو ساتھی جذباتیت کا مظاہرہ کرکے یا وٹو کے سر ساری ناکامیوں کا بوجھ ڈال کر پارٹی کا پنجاب میں احیاء نہیں کرسکتے

No comments:

Post a Comment