Sunday, October 12, 2014

پاکستان میں سیاسی جلسوں کی بہار


پاکستان تحریک انصاف کا سونامی انقلاب لاہور ، میاںوالی اور ملتان کے عوام کو فتح کرنے کے بعد سرگودھا جانے کی تیاری کررہا ہے اور جبکہ پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب مارچ کا ریلا فیصل آباد میں اپنا زور دکھا چکا ہے اور جھنگ جانے کی تیاری کئے ہوئے اور دونوں جماعتوں کا دھرنا شاہراہ دستور پر بدستور مورچہ زن ہے پاکستان پیپلزپارٹی بھی اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں سانحہ کار ساز کے شہیدوں کی یاد کو لیکر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے جارہی ہے اور اس کا ارادہ پنجاب میں نومبر کے اندر پانچ بڑے جلسے کرنے کا ہے پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے بلاول ہاؤس لاہور میں ڈیرہ لگآیا ہوا ہے اور ان کے ارادے بلاول ہاؤس میں تادیر براجمان رہنے کے ہیں اور انھوں نے عاشورہ کے بعد یو سی لیول تک کے کارکنوں سے ملنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ان کی جانب سے کارکنوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تںطیم کو منظم کرنے کے بعد پنجاب میں انٹرا پارٹی الیکشن بھی کرائیں جائیں گے پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے لاہور میں ابتک اپنے قیام کے دوران اپنا روئے سخن نواز شریف کی جانب کم اور پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین کی جانب زیادہ ہے اور سیاسی حلقوں میں پی پی پی کے بارے میں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ پی پی پی ایک اپوزیشن پارٹی ہے اور وہ حکومت کی اپوزیشن کرنے کی بجائے اپوزیشن کی اپوزیشن کرنے میں مصروف کیوں ہے ؟ پی پی پی کے شریک چئیرمین نے الیکشن کے بعد مسلسل یہ بیانات دئے تھے کہ پاکستان میں ابھی سیاست کرنے کا موسم نہیں آیا اور وہ یہاں تک کہ جب دھرنا عروج پر تھا تو لاہور میں صحافیوں سے ملاقات میں کہہ گئے تھے کہ سیاست کرنے کا وقت چار سال بعد آئے گا آصف علی زرداری اور ان کی کچن کیبنٹ کا خیال یہ تھا کہ چار سال گزرنے کے بعد وہ مسلم لیگ نواز کی نااہلی اور اس کی عوام کو ڈلیور نہ کرنے کی خرابی سے پھیلنے والی پنجاب میں مایوسی کو پی پی پی کے حق میں کیش کروائیں گے اور اس طرح سے پھر سے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کرلیں گے آصف علی زرداری اور ان کے دوست اسی خیال کی وجہ سے پارٹی کے اندر کسی قسم کی اصلاحات کی ضرورت پر بات تک نہیں کرتے تھے اور پارٹی کے اکثر کارکن بہت ہی بری طرح سے نظر انداز کئے جانے کا شکوہ کرتے نظر آتے تھے پی پی پی نے اس دوران بلاول بھٹو زرداری کو بھی بریکیں لگائیں اور آصف علی زرداری نے ان کا ریموٹ کنٹرول سنبھال لیا اور میرے قارئین کو یاد ہوگا کہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ سال انتہا پسندی ، مذھبی بنیاد پرستی کے خلاف سخت موقف اپنایا اور نواز شریف کی انتہائی دائیں سمت کی پالسیوں اور نج کاری سمیت ورکنگ کلاس دشمن اقدامات پر پے درپے بیانات دئے اور ایک آرٹیکل بھی لکھا تھا ، مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو اس سے یہ امید بندھی تھی کہ پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پی پی پی مصلحت پسندی کی سیاست کو ترک کردے گی اور پاکستان میں عوامی خواہشات اور نوجوان نسل کی امنگوں کی ترجمانی کرے گی اور حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی ، لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ جیسے ہی بلاول بھٹو زرداری کے بیانات اور تقریروں میں ریڈیکلائزیشن آئی تو آصف علی زرداری نے اس پر پانی ڈالنے اور مفاہمت ، مفاہمت کھیلنے کا سلسلہ شروع کرڈالا اور ایک طرح سے بلاول بھٹو زرداری کے اڑنے سے پہلے ہی پر کاٹ ڈالے پی پی پی نے جس میدان میں سیاست کرنے سے گریز کیا اور سمجھوتے بازی کی سیاست کے زریعے سے نواز شریف اور ان کے اتحادیوں کو زیر بار کرنے کی جو پالیسی اپنائی اس سے پاکستان پیپلزپارٹی کو فائدے کی بجائے نقصان ہوا میرے پاس فیصل آباد ، لاہور ، راولپنڈی ، ملتان ، سرگودھا ، ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں کی درجنوں کارکنوں کی ایک فہرست ہے جنھوں نے پی پی پی کی پرو نواز سیاست اور اپوزیشن نہ کرنے کی وجہ سے پارٹی چھوڑی اور پاکستان تحریک انصاف کا حصّہ بن گئے اور پی پی پی نے ان پارٹی چھوڑنے والوں کو منانے تک کی کوشش نہ کی پی پی پی کی قیادت کی ذھنیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی سمجھوتہ باز سیاست سے تنگ آکر اور انتہائی نچلے درجے کی طوطا چشمی کو ديکھر اور پھر ان کی پنجاب میں مسلسل غیرمقبول ہونے کی رفتار کو دیکھنے کے بعد جن لوگوں نے پیپلزپارٹی چھوڑی ان کو بے وفائی اور غداری کے طعنے ایسے دئے گئے جیسے پارٹی چھوڑنے والوں نے اقتدار کے گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے مقتدر پارٹی پاکستان مسلم لیگ نواز جوائن کرلی ہو اور وہاں وہ اقتدار کے مزے لوٹنے چلے گئے ہوں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پارٹی چھوڑنے والوں سے تند و تیز اپوزیشن اور حکومت کی سب سے بڑی اپوزیشن کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا رخ کیا پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر چاروں صوبوں سے نوجوان خون کی شمولیت کا سلسلہ تو کافی عرصہ پہلے سے ہی بند ہوگیا تھا اور اب پی پی پی کے بہت سے لوگ پارٹی چھوڑ بھی گئے تو اس صورت حال میں بلاول بھٹو نے ایک معذرت نامہ شایع کرڈالا اور آصف علی زرداری نے پارٹی کارکنوں شسے ملاقاتیں شروع کیں آصف علی زرداری سنٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام ڈویژن کی ضلعی تںطیموں سے اور جنوبی پنجاب کی لنگڑی لولی تنظیم کے عہدے داروں سے مل چکے ، گویا ان کی ملاقات اکثر ڈمی تنطیموں اور فوٹو سیشن کے ماہر عہدے داروں سے خوب ہوئی اور وہاں بھی چند گھس بیٹھ جابڑے اور انھوں نے شریک جئیرمین کو آڑے ہاتھوں لیا مشتاق پگانوالہ آف گجرات نے آصف علی زرداری سے گوجرانوالہ ڈویژن کی ملاقات کے دوران پوچھا کہ " زرا یہ تو بتلائیں کہ آپ الیکشن سے قبل اور الیکشن کے دوران یہ کہتے پائے جاتے تھے کہ پاکستان تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، مسلم لیگ ق کے امیدواروں کے کھڑے ہونے کا فائدہ پاکستان پیپلزپارٹی کو ہوگا اور پنجاب میں پی پی پی کی کارکردگی 2008ء کے الیکشن سے بہتر ہوگی تو ایسا ہوا کیوں نہیں ؟ اور ان دھرنوں کے دوران بھی آپ نے کہا تھا کہ ابھی سیاست کا وقت نہیں آیا تو یہ اجلاس کس خوشی میں ہورہے ہیں اور پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری 16 اکتوبر سے سیاست کرنے کے اعلان کس خوشی میں کررہے ہیں ؟ مشتاق پگانوالہ نے آصف علی زرداری سے پوچھا کہ پی پی پی کا پانچ سالہ دور اقتدار اگر واقعی برکات اور نعمتوں سے بھرپور تھا اور اس کے وزیروں و مشیروں کی کارکردگی اتنی ہی اچھی تھی تو پنجاب ، خیبر پختون خوا میں اس کے کیمپوں میں دھول کیوں اڑی ؟ آصف علی زرداری نے شاید مشتاق پگانوالہ کی بات ایک کان سے سنی اور دوسرے کان سے نکال دی اور یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری نے پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کو پانی کا بلبلہ قرار دے ڈالا ، انھوں نے پھر دو پہلوانوں کی لڑائی میں پاکستان پیپلزپارٹی کو فائدہ ہونے کا مفروضہ پیش کرڈالا آصف علی زرداری شاید تکڑے بیانات دیکر اس شرمندگی کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں جو ان کی پارٹی کو راولپنڈی کے اندر جیالوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے کراچی کے جلسے میں جانے سے انکار کی صورت میں اٹھانا پڑرہی ہے اور ان کے معتمد خاص فرحت اللہ بابر پی پی پی خیبرپختون خوا میں بہت بڑے بڑے جیالے ناموں کی پارٹی سے رخصتی کے خدشے کو روکنے کی کوششیں کررہے ہیں ، اس کی بھی پوشیدگی کی کوشش کی جارہی ہے پیپلزپارٹی کے کارکن مزارعے بنکر کام کرنے سے انکاری نظر آتے ہین اور شہید بھٹوز کے نام پر جذباتی بلیک میلنگ بھی ان پر اثر نہیں کررہی جبکہ پنجاب کے اندر عام آدمی کا موڈ باری اور سمجھوتوں کی سیاست کے یکثر خلاف نظر آتا ہے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان ، اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے عوام آدمی کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے اور جو عام آدمی کے ہاتھ کی نبض پر رکھے اس ہاتھ کو جھٹکنے کا مشورہ دیتا ہے وہ عوام میں نفرت کا نشانہ بن رہا ہے مسلم لیگ نواز کے وزیر کا ملتان میں رکشے میں بیٹھ کر فرار ہونا اور ملتان میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نوشتہ دیوار ہے جسے سب پڑھ رہے ہیں لیکن پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری اسے پڑھنے سے قاصر ہیں آج پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان کا بازو بنے ہوئے شاہ محمود قریشی کا پی پی پی سے نکلنے کا ایک سبب آصف علی زرداری کا پنجاب میں آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی میں شامل کئے بغیر شہباز شریف کو حکومت بنانے کی دعوت دینا اور شاہ محمود کی کوششوں پر پانی پھیرنا بھی تھا جبکہ شاہ محمود کے گھر چالیس سے زائد آزاد امیدوار بیٹھے ہوئے تھے اور مسلم لیگ ق سے ملکر حکومت بنانے کے آثار روشن تھے اور اس اقدام سے پی پی پی کا جو حشر شہباز شریف نے پنجاب میں کیا وہ سب کے سامنے ہے اور پی پی پی سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی سے ہاتھ دھو بیٹھی ویسے اس عید قربان پر ایک اور معجزہ بھی ہوا ہے کہ آصف علی زرداری نے عید کی نماز اس مولوی کے پيچھے ادا کی جس نے سابق گورنر سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھانے سے نہ صرف انکار کیا تھا بلکہ جو مولوی سلمان تاثیر کی رسم قل میں گئے تھے ان کی تجدید ایمان کی تقریب بھی منعقد کی تھی بلاول ہاؤس لاہور کا ترجمان حامد میر کے بھائی فیصل میر کو مقرر کیا گیا ہے - فیصل میر نے اپنے بھائی حامد میر کی جانب سے کیری لوگر بل کے سامنے آنے کے بعد جیسے زرداری حکومت اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو پاکستان میں بلیک واٹر کو لے آنے اور دیگر قسم کے افسانے گھڑنے پر جو خاموشی اختیار گئے رکھی شاید اس کا انعام ان کو شیری رحمان کے کہنے پر دیا گیا ہے پاکستان کے اندر کرپشن ، لوٹ مار ، اقربا پروری اور مڈل کلاس و غریبوں سے ٹیکس وصولی اور اشراف کو معافی اور بجلی کی چوری کا بوجھ ایمانداری سے بل ادا کرنے والوں پر ڈالنے اور 70 ، 70 ارب کا چونا لگانے کی سیاست کے خلاف نفرت ، انتقام میں بدل رہی ہے اور لوگوں کو اپنا انتقام پاکستان تحریک انصاف و پاکستان عوامی تحریک کی سیاست اور نعروں میں نظر آرہا ہے اور پی پی پی بھی نواز لیگ کی طرح اس غصے ، نفرت اور انتقام کو کاسمیٹک تبدیلیوں سے دبانے اور کم کرنے کی کوشش کررہی ہیں جو مجھے کم ہوتا نظر نہیں آرہا ، مجھے بلاول بھٹو زرداری سے بہت ہمدردی محسوس ہورہی ہے کہ جس کو آصف علی زرداری نے اپنی نام نہاد سیاسی ذھانت اور تدبر کے پنجرے میں قید کرکے رکھ دیا ہے اٹھارہ اکتوبر کو بلاول بھٹو کے پاس موقعہ ہے کہ وہ اس زندان پدر کو توڑ کر باہر آجائیں اور اپنی راہ خود متعین کرنے کی کوشش کریں

No comments:

Post a Comment