“The oppressed are allowed once every few years to decide which particular representatives of the oppressing class are to represent and repress them.” ― Karl Marx
Friday, June 20, 2014
نواز شریف کہتے ہیں -آبیل مجھے مار
Wednesday, June 18, 2014
چھوٹے،بڑے میاں کا شوق پولیس گردی
Sunday, June 15, 2014
بلوچ و پختون قوم تحریکیں اور دیوبندی-وہابی فاشزم
Tuesday, June 10, 2014
نواب خیر بخش مری-------بلوچ ایشو آزادی کا ہے خیرات میں حصّہ داری کا نہیں
تیرے عشق نجایا کرکے تھیا تھیا
آج حیدر جاوید سید نے اپنی وال پر عابدہ پروین ،عاطف اسلم کی آواز میں بابا بلھے شاہ کی کافی شئیر کی اور اسے اپنے سب دوستوں کے زوق کی نظر کیا اور میں نے جب اس کو سننا شروع کیا تو بے اختیار مجھ پر ایک جذب کی کیفیت طاری ہوگئی اور بے اختیار میرے دل میں رقص کرنے کی خواہش ابھری اور تھوڑی دیر کے لیے واقعی مین رقص کرنے لگ گیا
بابا بلھے شاہ نے خواہش کی تھی کہ وہ ایسی جگہ چلا جائے جہان سب اندھے ہوں کہ نہ تو کوئی اس کی زات پہچانے اور نہ کوئی اس کو مانتا ہو،بلھے شاہ نے ایک انسان کی دوسرے انسان سے محبت اور تعلق میں عزت اور احترام کا رشتہ محض ان کی صفت انسانیت اور صفت آدمیت کی بنیاد پر ہونے کی خواہش کو اپنے من کے اندر موجزن ہوتے اس وقت دیکھا تھا جب اسے ایک عام سے کاشتکار عنائت سے محبت ہوگئی تھی اور اس سے یہ محبت عشق پر پہنچی اور جنون بن گئی تو بلھے اور عنائت کے درمیان اش عشق اور محبت کے آڑے بلھے شاہ اور عنائت کے درمیان دونوں کی زات ،حسب نسب اور ان کا سماجی سٹیٹس سے ابھرنے والے معاشرتی تعصبات آگئے تھے ،جس کے تحت بلذے شاہ کا عاشق ہونا اور شاہ عنائت کا معشوق ہونا ،اس کا مرید ہونا اور عنائت کا مراد ہونا ،بلھے کا راہی ہونا اور عنائت کا منزل ہونا اس لیے معیوب ٹھہرا خود بلھے شاہ کے اپنے گھر والوں نے اس کی سپردگی کو برا جانا کیوں کہ سید زات کا ہوکر بلھے نے ایک کاشتکار ارائیں کو اپنا مرشد اور اپنی مراد بنالیا تھا
اس لیے تو بلھے کی شاعری میں جگہ جگہ اپنی زات کے سابقوں اور لاحقوں کو فنا کرنے کی بات اور تذکرہ ملتا ہے اور وہ زات اور ہستی کے ان سارے سابقوں اور لاحقوں کو فنا کرنے کی شدید خواہش کے ساتھ سامنے آتا ہے جس سے کسی قسم کا فخر اور امتیاز ابھر کر سامنے آتا تھا اور ہم اس کی اس خواہش کو بلھے کی نظم "بلھا کیہ جاناں میں کون"میں نظر آتی ہے
یہ مشکل بلھے کے ساتھ ہی پیش نہیں آئی تھی بلکہ اس سے کہیں گھمبیر مشکل شاہ حسین کے سامنے کھڑی تھی جسے ایک ایسی زات کے ساتھ عشق ہوا تھا جو ایک طرف تو ہندؤ تھا دوسرا وہ عمر میں شاہ حسین کی عمر سے تین گنا کم عمر تھا اور ایسے عشق پر جو طوفان اس وقت معاشرے میں مچا اس کی شدت کا اندازہ صرف اس بات سے لگائیے کہ شاہ حسین کو ایک مرتبہ بھرے مجمع میں آکے کہنا پڑا کہ
مادھو لعل کا جسم اس کے لیے اس کی ماں کے جسم کی مثل ہے
شاہ حسین اور مادھو لعل ساری عمر اپنے اپنے سابقوں اور لاحقوں کو ایک طرف رکھکر مذھب عشق کی پوجا میں مصروف رہے اور مر کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے رہے اور دونوں کی قبریں ایک ساتھ بن گئیں لیکن ملائیت اور سماج کے واعظوں کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا تو مادھو لعل کے مسلمانہوجانے کی روائت گھڑ لی گئی اور اس کا مسلم نام بھی ڈھونڈ نکالا گیا
میاں میر لاہور میں آج ایک کونے میں ہیں ،شاہ حسین بھی حاشئے پر اور بلھے شاہ کے مزار پر ان کے عرس پر لٹھ برداروں کا اجتماع کس لیے ہے یہ ان کی میراث کی نفی ہےاور ان کی بغاوت سے خوفزدگی کی شدت کا اظہار بھی ہے جو آج بھی ملئیت کے وارثوں پر طاری ہے
یہ ملائیت بار بار صوفیوں ،سادھوؤں،جوگیوں اور ملامتیوں سے شکت کھاتی رہی ہے اور اپنی جامد اور فرسودگی کے ساتھ مردنی کا شکار ہوتی رہی ہے اور پھر یہ ان سادھوؤں ،صوفیوں ،جوگیوں اور ملامتیوں کو مولانا اور رہبر شریعت بنانے کی کوشش کرتی رہی ہے جس طرح سے دربار والوں نے ننگے پیر ان صوفیوں کی قبروں پر حاضری دے کر وہآن بڑا سا دربار بناکر خانقاہ اور دربار کو ایک کرنے کی کوشش کی
لیکن تاریخ کا یہ بھی سبق ہے کوئی نہ کوئی شہزادہ خود دربار سرکار سے بغاوت کرکے ،کتابوں کو دریا میں بہاکر سب چھوڑ چھاڑ کر بن باس لے لیتا ہے اور نروان پالیتا ہے اور ملائیت کی جبر کے کوڈ پاش پاش کردیتا ہے اور قصر ملوکیت و آمریت کو گرادیتا ہے اور سارے جہان میں یہی کافی گونجنے لگتی ہے
تیرا عشق نچایا کرکے تھیا تھیا
Monday, June 9, 2014
خون خلق حلالست و آب بادہ حرام
Sunday, June 8, 2014
جعلی سول سوسائٹی کے مفتی اور کاغذی شیر
خانیوال ڈسٹرکٹ پریس کلب میں راشد رحمان ایڈوکیٹ شہید کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس ریفرنس میں پہلے ہم سن رہے تھے کہ شاید عاصمہ جہانگیر ،آئی اے رحمان ،حسین نقی ،حنا جیلانی میں سے کوئی ایک آئے گا لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں آیا
پتن ترقیاتی تنظیم کے سربراہ سرور باری اسلام آباد سے آئے تو سوال یہ زھن میں اٹھا کہ اسلام آباد سے سرور باری اگر اپنی گاڑی پر آسکتا ہے تو عاصمہ جہانگیر لاہور سے کیوں نہیں آسکتیں تھیں؟
ڈسٹرکٹ پریس کلب میں یہ تعزیتی ریفرنس جب منعقد ہوا تو مجھے شرکاء کو دیکھ کر لگا کہ اگر دسٹرکٹ پریس کلب کے 7 یا 8 صحافی اور ملک طارق نوناری کے ساتھ آنے والے تین وکیل اور ملتان سے آنے والے مہمانوں کو نکال دیا جائے تو شرکاء کی تعداد 20 سے 25 رہ جاتی ہے
یہ 20 سے 25 افراد بھی اکرم خرم ایڈوکیٹ اور فرخ رضا ترمذی کی کوشش سے پریس کلب آئے وگرنہ اس جگہ پر مجھے ضلع خانیوال تو دور کی بات خود خانیوال سے تعلق رکھنے والی سول سوسائٹی یا سینکڑوں این جی اوز کا کوئی ایک بھی آدمی نظر نہیں آیا
ابھی یوم مئی پر مزدوروں کے عالمی دن پر سول سوسائٹی نیٹ ورک کی ایک صدر جوکہ سابق ممبر ضلع کونسل بھی ہیں اور بہت سرگرم این جی او ورکر ہیں نے ایک این جی او فنڈڈ پروگرام جناح لائبریری میں منعقد کیا تھا اور اس میں ڈی سی او کو مہمان خصوصی بنیا جانا مقصود تھا جو نہ آئے مگر ويگنوں اور رکشوں میں بھر کر لوگ لائے گئے اور پورا ہال بھر لیا گیا تھا وہ سول سوسائٹی نیٹ ورک اس تعزیتی ریفرنس پر غائب تھا اور نظر نہیں آیا وجہ شاید یہ تھی کہ ایک تو راشد رحمان کے قتل پر آواز اٹھانا خطرے سے خالی نہیں ہے دوسرا اس پروگرام میں آنے جانے کا کرایہ اپنی جیب خاص سے بھرا جانا تھا
اکرم خرم ایڈوکیٹ جو خانیوال میں انسانی حقوق کے ایک سچے سرگرم کارکن ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ ان کے منہ کو میں اس تعزیتی ریفرنس میں گیا ورنہ لاہور اور ملتان سول سوسائٹی کے نام پر لگنے والے تماشوں میں میرا دل نہیں کیا کہ وہاں جاؤں اور فوٹو سیشن کا حصّہ بنوں
مجھے جب سٹیج پر تقریر کے لیے بلایا گیا تو میں نے وہاں پر جاکر وہی سوالات اٹھائے جو میں اپنے گذشتہ بلاگ بعنوان "راشد رحمان ،جعلی سول سوسائٹی "میں اٹھا چکا تھا اور میں نے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے مالکان کی مجرمانہ غفلت پر ایک مرتبہ پھر سے کڑی تنقید کی اور میں نے راشد پر حملے کے دوران زخمی ہونے والے ان کے ساتھی ندیم پرواز اور ان کے معاون کے مبینہ بزدلانہ کردار پر سوالات اٹھائے لیکن یہ بھی کہا کہ
جب عاصمہ جہانگیر ،آئی اے رحمان راشد کے مقدمے میں مدعی نہ بنیں ،عاصمہ جنید حفیظ کے کیس میں اپنا وکالت نامہ دائر نہ کرے اور ایچ آرسی پی دوسری ایے آئی آر درج کرانے کی درخواست ایک مہینہ 48 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی نہ دیں تو پھر یہ ندیم پرواز اور اللہ داد جیسے نمانوں سے کیسے امید کرتے ہیں کہ وہ ثابت قدم رہیں گے
میں سمجھتا ہوں ملتان بار کے 7000 ہزار وکلاء میں سے کوئی راشد رحمان کا مقدمہ اس لیے بھی لڑنے کو تیار نہیں ہے کہ اس معاملے میں خود ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی اشرافیہ کا رویہ بہت غلط اور خود غرضانہ ہوا ہے
اس تعزیتی ریفرنس میں مرحوم سید سجاد حیدر زیدی کی اہلیہ آپا سیدہ زھراء سجاد نے میری تقریر میں اٹھائے کئے سوالات کو بالکل جائز قرار دیا اور انھوں نے انکشاف کیا کہ
جب عاصمہ جہانگیر راشد کے گھر پہنچیں جہاں راشد کی میت جنازہ گاہ لیجانے کو تیار تھی تو راشد کی بہن جوکہ بیوہ ہے اور اس کے تین بچوں کا راشد واحد کفیل تھا نے آگے بڑھ کر عاصمہ جہانگیر کی جانب سے تعزیت کرنے پر کہا کہ
بی بی! میں راشد کے جنازے پر کوئی بدمذگی نہیں چاہتی لیکن تم نے اتنا بھی نہ سوچا کہ جس راشد نے ایک لکڑی کی عام سی کرسی پر سخت سردی اور شدید گرمی میں 31 سال تمہارے ادارے کی خدمت کی اس کے لیے ایک گارڑ کا انۃظام ہی کرڈالتیں ،آج جتنی پولیس اور گارڑ تمہارے ساتھ ہے ان میں سے محض ایک بھی راشد کے دفتر کے باہر ہوتا تو شاید میرا راشد تقدیر کو ٹال دیتا
راشد کی بیوہ بہن کے یہ جملے عاصمہ جہانگیر اور پوری سول سوسائٹی کے جعلی لبرلز کے منہ پر طمانچہ ہیں اور آج راشد کے گھر میں سب سے بڑا مرد ایک اس کا بھانجا ہے جس کی عمر ابھی 12 سال ہے جب راشد کے قتل کی ایف آئی آر کٹانے کے لیے کوئی مدعی بننے کو تیار نہیں تھا تو یہ بھانجا تھا جو بار بار کہتا تھا کہ اسے مدعی بناؤ اور بقول آپا زھرا کے یہ 12 سالہ بچہ نام نہاد بہادر مردوں اور عورتوں سے کہیں زیادہ بہادر ہے آپا کو فون کرکے کہتا کہ
آنٹی ! میں تو مما اور نانی کو سمجھا سمجھاکر تھک گیا ہوں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں مگر نانی (راشد کی ماں) کہتی ہے کہ بیٹا عاصمہ جہانگیر نواز شریف اور شہباز شریف کے پاس خود چل کر کیزن نہیں جاتی اور میرے بیٹے نے جن کو نامزد کیا تھا ان کو گرفتار کرائے
میں نے اس تعزیتی ریفرنس میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ عاصمہ جہانگیر جس طرح صائمہ ارشد کیس میں وکیل بنیں تھیں اور وہ افتخار چودھری کی بھی معاونت کرتی رہیں تو آج کیا وہ راشد اور جنید حفیظ کے کیس میں اپنا وکالت نامہ جمع کرائیں گی ؟اور کیا انسانی حقوق کمیشن کے وکلاء کی ٹیم کے ساتھ ملتان میں شفاف ٹرائل کے لیے جدوجہد کریں گی؟
یہ سوال ان پر قرض ہے اگرچہ انھوں نے ہائپر ہوکر پچھلی مرتبہ میرا فون کاٹ دیا تھا لیکن یہ سوالات ان کا پیچھا کرتے رہیں گے
اکرم خرم ایڈوکیٹ نے ایک وضاحت کرکے میری یہ خوش فہمی بھی ختم کردی کہ لاہور میں تعزیتی ریفرنس کے دوران راشد کے مبینہ قاتلوں کی نامزدگی پر مبنی ایف آئی آر کے اندراج کی کوئی قرارداد پیش نہیں ہوئی بلکہ یہ قرارداد تو اسلام آباد میں اکر م خرم کی کوششوں سے پیش ہوئی
اکرم خرم ،فرخ رضا اور ان جیسے سفید پوش طبقے کے درجنوں انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانوں کو جو خطرات لاحق ہیں اور ان کے حوالے سے جعلی سوسائٹی کے جعلی لبرلز جس خود غرضی کا ژطاہرہ کرتے ہیں اس سے یہ اندازا کیا جاسکتا ہے کہ سول سوسائٹی کے نام پر چلنے والے نیٹ ورکس میں بھی طبقاتی درجہ بندی موجود ہے راشد رحمان تو پھر بھی کسی حد تک لائم لآئٹ میں تھے اور ان کا حسب نسب بھی قابل زکر تھا لیکن اکر یہ افتاد کسی چھوٹے ٹاؤن کے کسی معمولی بیک گراؤنڈ رکھنے والے روشن خیال پر ٹوٹ پڑتی تو اتنا شور بھی نہ مچ پاتا جتنا راشد کے لیے بظاہر مجایا جارہا ہے
راشد رحمان نے مزدوروں،کسانوں،بھٹہ مزدوروں ،مزارعین ،مظلوم و مجبور عورتوں کے 6000 ہزار سے زائد کیس عدالتوں میں دائر کئے ہوئے تھے اور یہ کیسز اب کون لڑے گا کچھ پتہ نہیں ہے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کی قیادت نے بھی خاموشی اختیار کررکھی ہے اور انسانی حقوق و سول سوسائٹی کی دیگر ہزاروں تںظیموں کی جانب سے بھی ان بے وکیل ہوجانے والے افتاد گان خاک موکلوں کو اب تک گود لینے کا اعلان کسی جانب سے نہیں ہوا کیونکہ ان میں سے اکثر کیسز راشد مفت لڑ رہا تھا یہاں تک کہ کیس کی فائل پر اٹھنے والے اخراجات بھی راشد لیا نہیں کرتا تھا مگر ایس؛ دریا دلی گفتار کے غازی انسانی حقوق کے اشراف کہاں سے لیکر آئیں گے؟
سرور باری نے اپنی تقریر میں میرے سوالات کو جائز قرار دیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کے خیال میں اسے ایشو نہیں بنانا چاہئیے مجھے معلوم ہے کہ سرور باری نہیں چاہیں گے کہ این جی او سیکٹر کے اشراف اور بڑے بروکرز سے تعلقات بکڑنے کے کافی نقصانات ہوا کرتے ہیں جو وہ افورڑ نہیں کرسکتے اور مشرف دور میں مفادات کا یہ ٹکراؤ سول سوسائٹی میں دیکھنے کو ملا تھا جب سرور باری ،حارث خلیق ،حسن ناصر ،فاروق طارق سمیت این جی او سیکٹر کا بڑا حصّہ نواز شریف کی اے پی ڈی ایم کا حصّہ بنا اور مجبور ہوکر بے نظیر بھٹو شہید نے بھی عاصمہ جہانگیر کے گھر سول سوسائٹی کا ایک اجتماع کیا اور مقصد مشرف کی نام نہاد لبرل حامی سول سوسائٹی کا زور توڑنا تھا اس زمانے میں سرور باری صاحب لاڑکانے سے بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی سوچ رہے تھے اور جنرل تنویر نقوی کے بل بوتے پر بقول ان کے وہ مشرف سے وہ کام لینا چاہتے تھے جو بھٹو سے لیفٹ نہیں لے پایا تھا
میں یہ ساری باتیں بیٹھا اس وقت سوچ رہا تھا اور وہ مذھبی فاشزم کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ یہ بس ایک بلبلہ ہے اور یہ بہت جلد پھٹ جائے گا وہ قرامطہ کی مثال لیکر آئے اور انھوں نے تاریخ کو پڑھنے کا مشورہ بھی دیا لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ مذھبی فاشزم کے اس بلبے کو تباہی پھیلانے سے روکنے کا کیا پروگرام ان کی نام نہاد سول سوسائٹی کے پاس ہے جو 80 ء کی دھائی سے پاکستان کے اندر خود کو متبادل سماجی تبدیلی کے علمبردار کے طور پر پیش کرتی آرہی ہے جس کے اکثر ڈائریکٹرز نے اور مالکان نے طبقاتی فلسفے اور مادی طبقاتی جدلیات پر مبنی سماجی تبدیلی کے علمبرداروں کا مذاق اڑانا اپنا وتیرہ بنالیا تھا اور یہ آج بھی محض لبرل نعروں اور معمولی سی فنڈنگ کی خیرات پر اس ملک کے محنت کشوں،کسانوں،طالب علموں ،خواتیں ،مظلوم قومیتیوں کو اپنے پیچھے دیکھنے کے خواہاں ہیں اور جب کبھی ان کے اشراف پنے اور ان کی دولت اور سٹیٹس کی جانب افتادگان خاک کی نظر جاتی ہے تو انھیں بہت شدت سے احساس ہوتا ہے کہ یہ ان کے مسیحا نہیں ہوسکتے
جعلی سول سوسائٹی اور کاغذی لبرل اشرافیہ اس خوش فہمی سے باہر آجائے کہ وہ اپنے فنڈنگ پروجیکٹوں کے تحت اس ملک کے غریب ،محنت کش طبقات کو مذھبی فاشسٹوں کے آگے چارے کے طور پر ڈالے رکھیں گے اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں اور ان کی میتوں کی تصاویر اور ان پر ڈاکومنٹریز بناکر مغربی فنڈنگ ایجنسیوں سے اینٹی بلاسفیمی ایکٹ مومنٹ کے نام پر ،عورتوں پر تشدد کے خلاف تحریک کے نام پر مذھبی فاشزم کے خلاف سیکولر بیانیل پھیلانے کے نام پر لاکھوں ،کروڑوں کے پروجیکٹ لاکر عیش کرتے رہیں گے
لوگ بے حس نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ مذھبی فاشسٹ ہوئے ہیں بلکہ انھیں میر کارواں کے رہزن ہونے کا شک ہی نہیں یقین ہوگیا ہے اور ان کی غیر حاضری بے حسی نہیں بلکہ جعلی سول سوسائٹی اور کاغذی لبرلز سے بے زاری کی علامت ہے وہ بدعنوان ،خود غرض اور موقعہ پرست اشرافیہ کو مسترد کرتے ہیں تو مطلب ایک روادار ،روشن خیال اور معتدل معاشرے کے قیام کے آدرش کو رد کرنا نہیں ہوتا ہے
پچھلی مرتبہ جب میں جعلی اور کاغذی سول سوسائٹی کے بارے میں پورا سچ لکھا تو عائشہ صدیقہ نے لکھا کہ اب ان سول سوسائٹی کے مفتیوں کے فتوؤں سے کیسے بچو گے ؟
یقینی بات ہے کہ پورا سچ تو کسی بھی جانب سے ہضم ہونے والا ہوتا نہیں ہے اسی لیے یک گونہ تنہائی اور بے گانگی کا شکار ہونا لازم ہوتا ہے لیکن یہ بے گانگی اور تنہائی مجھے منافقت کے ساتھ ہمہ وقت جلوت میں رہنے سے کہیں ہزار درجہ عزیز ہے
مجھے خوشی ہے کہ نوجوان اور غیر اشرافی سیکولر لبرل بائیں بازو کے لوگ میری بات کو سنتے بھی ہیں اور موقعہ پرستی کے اس کلچر کو رد کرنے میں بھی ان کو کوئی عار نہیں ہے اور یہی سب سے بڑا انعام ہے جو مجھے مل رہا ہے
Friday, June 6, 2014
ملاں نئیں کہیں کار دے،شیوے نہ جانن یار دے
روشنی سے ڈرے ہوئے لوگ-یہ میرے گذشتہ بلاگ کا عنوان تھا میں نے اسے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بھی پوسٹ کیا تو میرے ایک چھوٹے بھائی آصف رضا نے اس پر ایک کمنٹ کیا تو یہ کمنٹ ایسا تھا جس کا سیاق اور سابق مجھے خوب معلوم تھا
مجھے اپنی طبعیت زرا موج میں نظر آئی اور لگا کہ جملے قطار در قطار اترنے لگے ہیں اور کہیں زرا رکنے کا موقہ نہیں ملا اور بس لکھتا چلا گیا
آصف رضا ایک کمپیوٹر شاپ کا مالک ہے ،بہت اچھا اور تعاون کرنے والا نوجوان ہے ،میرے شہر میں اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا علم عام نوجوانوں میں منتقل کرنے میں خاصا کردار ادا کیا ہے
مجھ جیسے نوآموز کو بھی اس نے بہت مدد بہم پہنچائی اور کبھی تعاون کرنے سے انکار نہیں کیا
اخلاق اور عادات سے بہت اچھا ہے لیکن میرے خیالات سے وہ کبھی متفق اس لیے نہیں رہا کہ خانیوال کے مریدان سید مودودی کے زیر سایہ وہ رہا ہے اور مریدان بھی ایسے کہ جنھوں نے اسے کبھی حریب فکر کے جام کے قریب جانے نہیں دیا کیونکہ وہ خود کبھی اس جام کے نزدیک نہیں گئے
مجھے بھی عاشقان مودودیت کی صحبت سے لطف اٹھانے کا موقعہ میسر آیا لیکن ان میں سے کچھ عاشق زرا زیادہ ظرف اور زیادہ وسعت نظر والے تھے شاید یہی وجہ ہے کہ میں مودودیت کے کنویں میں قید ہونے کی بجائے فکر کے سمندر کی غوطہ زنی کرنے کے قابل ہوگیا
حالانکہ مجھے تیراکی عملی طور پر آتی نہیں ہے اور سائیکل چلالیتا ہوں موٹر سائیکل اور گاڑی چلانے سے نابلد ہوں لیکن فکر و خیال کے سمندر کی گہرائيوں میں جانے سے مجھے ڈر نہیں لگتا
آصف رضا ! اپنے اپنے زاویہ ہائے نگاہ ہوتے ہیں ،تم نے تاریخ ،سیاست اور سماجیات کے باب میں اپنی زمانہ طالب علمی میں جو بھی پڑھا وہ اسلامی جمعیت طلباء کے بچونگڑوں سے پڑھا اور ایسے ہی کچھ دروس شاگردان سید مودودی سے لیے اور اب میڈیا میں تمہارے سب سے پسندیدہ لوگ اوریا جان مقبول ،انصار عباسی ،ڈاکٹر شاہد مسعود ،ہارون الرشید جیسے لوگ ہیں جو تاریخ ،ادب ،سیاست ،معشیت ،سماج اس بارے میں جو بھی بتائیں گے وہ یا تو آبپارہ میں سرخ عمارت سے دی گئی ہدایات پر مشتمل ہوگا یا پھر وہ ملاّئیت کی اندھیر نگری سے آیا ہوگا اور سب کا سب مسخ شدہ ،جنونیت سے بھرا اور تعصب کی اندھی وادی میں ڈوبا ہوا ہوگا
یہ تاریکی ایسی ہے جو آنکھوں کو واقعی چندھائی دیتی ہے اور تاریکی میں رہنے والے یک دم روشنی میں آجائیں تو ان کی آنکھوں پر اندھا پن آجاتا ہے اور وہ روشنی کو تاریکی کہنے پر مصر ہوجاتے ہیں اور بے اختیار ظلمت کو ضیاء کہنے والے اصل ضیاء پاشی دیکھ کر قلب کی بینائی کے بعد چشم بصارت بھی کھو بیٹھتے ہیں ،روشنی کس قدر روشنی دیتی ہے تبھی تو اسے بار بار بین کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے اگر یہ کاروبار ظلمت ہوتا اور یہ غیر منطقی ،بلا عقل و فہم کے بات پیش کررہی ہوتی تو اس پر اس قدر سیخ پا ہونے کی ضرورت کیا تھا ،اس کا رد کیا جاتا ،جو روشنی کو روشنی نہیں سمجھتے وہ اس کی تاریکی کا پول کھولتے دلائل سے اس کا سیاہ و تاریک ہونا ثابت کرتے ،اس کی گمراہی کے راز ہائے درون کو افشاء کردیا جاتا اور اس کے تار و پود الگ الک کردئے جاتے
آصف رضا! تمہارے پاس ٹک کر پوری لگن کے ساتھ کسی معاملے پر غور وفکر کا وقت ہی کہاں ہے ایک کاروباری دنیا کے آدمی ہو سارا دن اور ساری رات نان و شبنہ میں الجھے رہتے ہو اور اس دوران تمہارے پاس وقت صرف اتنا ہے کہ فیس بک پر کوئی امیج دیکھو ،کوئی سٹیٹس اپ ڈیٹ دیکھو اور پھر کسی چلتے چلتے اپنے پسندیدہ بت کی تحریر کو پڑھ ڈالو اور پھر اپنے پرانے تعصبات کی روشنی میں فیصلہ صادر کردو
سید مودودی کو میں نے بھی پڑھا تھا سلامتی کا راستہ سے لیکر تفہیم القران تک لیکن ایک مقلد اور مغلوب ہوئے شخص کی طرح نہیں ،تاریخ کے ہر ایک شارح اور ہر ایک مورخ کی تعبیر دیکھی اور اب بھی عقل کل اور حتمیت کا داعی نہیں ہوں اور نہ ہی اندھی تقلید کرتا ہوں
مجھ جیسے لوگوں میں یہ حوصلہ اور ہمت یونہی نہیں آئی کہ اپنے محسنوں کے ںظریات اور خیالات سے اختلاف رکھنے کے باوجود جب ان کی خدمات اور ان کی اصل اہلیت کا زکر آئے تو اس کا برملا اعتراف بھی کروں اور ان کو خراج عقیدت بھی پیش کرون ،یہی وجہ ہے کہ میں سید مودودی کی نثر کی سادگی ،پرکاری ،پر اثر ہونے سے کبھی انکاری نہیں ہوا ،یونہی میرے اندر علم و عرفان کی شمع فروازاں کرنے اور کتابوں سے میرا رشتہ جوڑنے میں میرے استاد سعید الرحمان کا جو حصّہ ہے میں نے اسے کبھی فراموش نہیں کیا ،عبدالکریم سروش پر ایک کتاب مرتب کی تو اس کا انتساب ميں نے سعید الرحمان اور وجاہت مسعود کے نام کیا اور سعید الرحمان میرے انگلش کے استاد تھے اور وہ جماعت اسلامی کے بہت پرانے رفیق کار اور مسلک کے اعتبار سے اہل حدیث ہیں لیکن ان کی ایمانداری ،دیانت داری اور ان کی اپنے شاگردوں سے لگن کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے،میں نے شیخ الحدیث داماد علامہ یوسف بنوری بانی جامعہ بنوریہ العالمیہ مولانا طاسین کے دست فیض سے مستفید ہونے کا کبھی انکار نہیں کیا ،آج بھی جعمیت علماء اسلام کے طلباء ترجمان رسالے کے بانی ایڈیٹر شمس القمر قاسمی سے نیاز مندی باقی ہے
شورش کاشمیری کے چٹان میں سب ایڈیٹر شعیب الرحمان پکّے احراری تھے لیکن نیاز مندی ان سے رہی اور خوب رہی ان کے فن کا اعتراف بھی ان پر چھپی کتاب میں کیا ،یہ سب باتیں تحدیث نعمت کے طور پر کررہا ہوں کہ انصاف اور دیانت کی باتیں خوب کی جاتیں ہیں لیکن جب کبھی اختلاف کی منزل آجائے اور ایسے موقعہ پر عدل و ظلم کے درمیان مسابقت ہوجائے تو اکثریت عدل کا دامن ترک کردیتی ہے اور پھر ظلم کے سہارے اپنی باتوں کو ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے
آصف رضا !
جس تحریر کو آپ روشنی کا نام دیکھکر بس تاریک معانی پہنانے پر تل گئے زرا اسے گہرائی سے پڑھا ہوتا تو پتہ چلتا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں ،دوست نظریات اور افکار پر پہرے بیٹھائے نہیں جاسکتے ،تمہیں کیا بتاؤں کہ عقل اور خرد کو کتنے جوتے ملائیت نے مارے ہیں
میں جب ملائیت کہتا ہوں تو اس سے مراد ہر مذھبی سکالر یا مخصوص وضع قطع کا آدمی نہیں ہوتا ہے اگر ایسا ہوتا تو میں سعید الرحمان ،مولانا طاسین ،مفتی محمد اسیر مالتا،مولانا فصل حق خیر آبادی،حفظ الدن سیوھاروی ،مولنا مناظر احسن گیلانی ،عبید اللہ سندھی ،ڈاکٹر کمال ،شمس القمر،مولانا برکت اللہ بھوپالی کا مداح کیوں ہوتا ؟
ملآئیت سے مراد ایک کیفیت اور زھنیت اور سوچ ہے جو اوریا جان مقبول اور انصار عباسی کے ہآں بھی ہے جو صاحب ریش قصیر ہیں اور جاوید چودھری کے ہآں بھی ہے جو بے ریش ہیں اور حافظ سعید و امیر حمزہ کے ہاں بھی ہے جو صاحب ریش طویل ہیں اور یہ اے کے بروہی میں بھی تھی جو بے ریش و بے مونچھ تھے اور تھری پیس سوٹ ،نکٹائی میں ہی رہا کرتے تھے،
تو میرے بھائی یہ ملائیت ابن رشد پر جامع مسجد اندلس کے باہر جوتے برساتی نظر آتی ہے زکریا رازی کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلاتی ہے اور اس سے بہت پہلے یہ ملائیت ہمیں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے "اعدل ۔اعدل " کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہے اور باب مدینۃ العلم مولا علی کو کافر کہہ کر مسجد میں شہید کردیتی ہے اور یہی ملائیت تھی جو نواسہ رسول کو باغی ،خروج کا مرتکب کہتی ہے اور اس کی گردن پر خنجر پھیرتی ہے اور یزید کی صحابیت اور اس کی مغفرت کا جواز تلاش کرتی ہے اور یہی ملائیت ہے جو تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرک اور نعت رسول کو بدعت قرار دیتی ہے اور یہی ملائیت ہے جو بنگالیوں کی زبان کو ہندوانہ اور ان کے لباس کو غیر اسلامی قرار دیتی ہے اور اردو کو مقدس اور مذھبی زبان قرار دے دیتی ہے ،یہی ملائیت ہے جو شناخت کے سوال کو مذھبی بناتی ہے اور حق مانگنے کو صوبائیت ،لسانیت نہ جانے کیا کچھ کہتی ہے میرے دوست یہ ملائیت ہے جو نام دیکھر کسی کے زندہ رہنے نہ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے
اسی لیے ملائیت ،پاردریت ،احباریت کا دشمن ہر صوفی ،ہر سقراطی ،ہر موسوی،ہر عیسیوی ،ہر بلھا ،شاہ حسین ،کبیر ،ہر ابن رشد ،ہر رازی ،ہر سینا ،ہر منصور ،ہر یعقوب الکندی رہا ہے واعظ ،ناصح ،محتسب ،ملّا اور پیر سے لڑائی رہی عارفوں کی ،باغیوں کی ،رندی عشق میں ڈوب جانے والوں کی ،ہر مست و الست کی ہر عاشق کی ،ہر شناسائے گوجہ محبتاں کی ،ہر مردود حرم مگر اہل صفا کی ،اب اگر اسے تم تاریکی کہو ،اسے تم ظلمت کہو تو پھر دودھ بھی کڑوا اور شہد بھی کالا ہوسکتا ہے اور ہر بینا اندھا ،ہر صاحب عدل ظالم ہوسکتا ہے اور اگر تم اس فلسفے کے قائل ہو بھی جاؤ تو مجھے اس پر چنداں حیرت نہیں ہوگی کیونکہ یہاں پر حسین کو باغی اور یزید کو صحابی اور مغفور کہنے والوں کی کمی نہیں ہے
لیکن تاریخ کا یہ سبق تمہیں اور مجھے بلکہ ہم سب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ جس سچ کو پابند سلاسل کرنے یا اسے چھپانے یا اس کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بار بار سامنے آتا ہے اور پھر وہی ایک زمانے میں چیزوں کو ماپنے کا آلہ قرار پاتا ہے
آٹھویں صدی سے گیارھويں صدی تک عرب ،وسط ایشیا کے مسلم سماج میں فلسفہ ،سائنسی اور سماجی علوم کے عالموں اور فاضلوں کو زلیل کیا جاتا رہا اور فسلفہ و سائنس کی کتب کو کفریہ اور شرکیہ کتب قرار دیکر جلادیا گیا اور ان موضوعات پر لکھنے کی سزا قتل قرار دے دی گئی
کیا بتاؤں کیسا حبس فکر اور خیال تھا جو آٹھویں صدی سے گيارھویں صدی تک مسلم سماج کی قسمت بنا رہا اور علوم کے شہ پارے اور موتی سب کے سب کے ویسے ہی عرب سے ہجرت کرکے یورپ چلے گئے جیسے کبھی یونان سے ہجرت کرکے عرب ملکوں میں آئے تھے
ابن رشد ایوی رس ،ابن سینا ایبی سینیا ہوگیا سب عربی عالمان سائین و عمرانیات کے نام لاطینی ہوگئے اور پورا یورپ سچ کے نور سے جگ مگ کرنے لگا اور ساری دنیا سے طالبان علم وہیں کا رخ کرنے لگے
آج مسلم ممالک کے اندر سائنس اور سماجی علوم کی نصابی کتب اٹھاکردیکھیں مسلم تہذیب کو علم و عرفان کی روشنی سے جگماگانے والی ثابت کرنے کے لیے ان سارے فلسفیوں ،سائنس دانوں اور ماہرین لسانیات و ادب کا حوالہ دیا جاتا ہے جن کو کبھی زندیق اور کافر کہا گیا تھا اور جن کی کتابوں کو چلادیا گیا ،جن کو جامع مساجد کے دروازے کے سامنے بٹھاکر عوام و حواص سے جوتے پڑوائے گئے اور جن کی لاشوں کو مرنے کے بعد قبر سے نکال کر فلسفہ پڑھنے کی سزا دی گئی تھی
آج ابن ہثیم ،موسی خوارزمی ،زکریا رازی ،ابن رشد،ابن سینا ،یقعوب الکندی اور طوسی کے تذکرے کے بغیر مسلمانوں کی علمی و فکری تاریخ کا بیان مکمل نہیں ہوتا ہے
ایک بات مجھے آخر میں کہنی ہے ہوسکتا ہے اس پر بہت شور مچے اور ہمارے بہت سے قدامت پرستوں کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں
قرون وسط کے جتنے فلسفی ،ماہرین طبعیات،حیاتیات،فلکیات،ریاضی والجبراء و جیومیٹری اور بڑے صرفی و نحوی تھے وہ سب کے سب عقائد کلامی میں معتزلہ اور مسلک کے اعتبار سے یا تو شیعہ امامیہ تھے یا شیعہ اسماعیلی
اور تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جس نے فزکس کا نوبل انعام جیتا وہ بھی احمدی تھا
یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس ک چھٹلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے تو ہم نے ہدائیت و گمراہی کے جو پیمانے اخروی طور پر خود سے متعین کررکھے ہیں ان کا اطلاق کم از کم طبعی سائنسی اور سماجی علوم پر تو نہیں ہوتا
آصف رضا ! تم نے سوچا ہے کہ آج پاکستان ،عراق ،شام ،لبنان ،بحرین میں جن لوگوں کو محض شیعہ ہونے کی بنیاد پر قتل کیا گیاوہ بہترین ڈاکٹر ،سرجن ،وکیل ،انجینئر تھے اور خلق خداکی خدمت کرنے کے حوالے سے ان کا ریکارڈ مثالی تھا
ایک بات اور بہت اہم ہے کہ ان مقتولوں کو جاننے والے اور ان کے پڑوس میں رہنے والے اور ان سے لین دین کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ خدا ترس تھے،غریبوں اور مجبوروں کے حامی تھے ،غرور و تکبر سے پاک تھے گویا خلق خدا ان کی فقیری کی گواہ تھی ان کی درویشی کی عینی شاہد تو وہ کیوں مار دئے گئے؟
جواب بہت سادہ ہے ان کو مارنے والے ملّائیت کی تاریکی کے مارے ہوئے تھے جبھی تو روشنی کے چراغ گل کرنے آگئے
آصف رضا!
کسی دن میرے مرنے کی خبر آئے اور تمہیں معلوم ہو کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے مجھے شہر کی کسی سڑک کے کنارے ،کسی گلی کی نکڑ جاتے ہوئے یا کسی چائے کے ہوٹل پر چائےکی چسکی لیتے ہوئے گولیاں مار کر ہلاک کرڈالا تو تم شاید دل میں یہ سوچوگے کہ اگر روشنی ،روشنی نہ کرتا اور پرانے قصوں کو گاہے گاہے تازہ نہ کرتا تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا
تم شاید کہو کہ آدمی لین دین کا کھرا تھا ،نیت کا برا نہیں تھا لیکن اس کے خیالات۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اور شاید کبھی تم کسی مجمعے میں بیٹھ کر جب یہ دوھراؤ گے تو مجھے یقین واثق ہے کہ میری جیسے خیالات تمہیں پھر کسی اور نام کے آدمی ،کسی اور لہجے والے آدمی یا عورت سے سننے کو ملیں گے اور تم کہو گے
احتیاط کرو تم سے پہلے بھی یہ سودا بہت سے لوگوں کے سرمیں سمایا تھا جو تاریخ ہوگئے
لیکن دور کہیں قصور سے بلھّے شاہ کی قبر سے آواز آرہی ہوگی
وہ تینوں کافر کافر آکھدے
تو آہو آہو آکھ
Thursday, June 5, 2014
روشنی سے ڈرے ہوئے لوگ
Subscribe to:
Comments (Atom)













