Thursday, October 6, 2011

کل اور آج کی کہانی

کل اور آج کی کہانی
عامر حسینی
میری فیس بک پر ایک روشن خیال ترقی پسند ساتھی مریم سرفراز ہیں-بہت اچھا لکھتی ہیں-ان کی تحریروں میں یہ لپک نذر آتی ہے کہ وہ اپنی ہم عمر ساتھیوں کو قدامت پرستوں،مزھابھی انتہا پسندوں اور مذھب کی بنیاد پر منافرانہ سیاست کرنے والوں کے تضادات سے آگاہ کریں-ابھی آج ہی انھوں نے مذہبی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی ہندوستان اور پاکستان کی شاخوں کے درمیان پایا جانے والا تضاد لوگوں کو بتائیں-
اہنوں نے لکھا تھا "پاکستان میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام اسلام نافظ کرنے اور وہاں ہندوستان میں یہ سیکولر ازم کی حفاظت کے لئے کام کرتی ہیں-آخر ایک خیال اور فکر پر تشکیل پانے والی یہ تنظیمیں دو مختلف نظریات کی حمیت کیسے کر رہی ہیں"
جو چیز ہندوستان میں اسلام کے خلاف نہیں ہے وہ پاکستان میں کیسے لادینیت ،الحاد،کفر اور خلاف اسلام ہو جاتی ہے-مجھے ان کی کے یہ تحریر پڑھ کر خیال آیا کہ یہاں پاکستان میں مودودی اور حسین احمد مدنی کے منانے والی یہ تنظیمیں کون سا ان کے نظریات کی پیروی کر رہی ہیں-
مولانا مودودی صاحب نے جب نیشنل ازم اور سٹیٹ کے سوال پر غور کرنا شروع کیا تو انھوں نے اپنے نظریات کا اظہار اپنی جماعت کے آرگن ترجمان القران میں کرنا شروع کتیا-یہ خیالات بعد ازاں کتابی شکل میں چند ترامیم اور تبدیلیوں کے ساتھ دو جلدوں میں کتابی شکل میں شایع ہوئے تھے-ان خیالات کے مطابق "نہ تو کانگریس کا تصور وطنیت اور قوم پرستی اسلام کے اصلوں کے مطابق تھا -نہ ہی مسلم لیگ کا مسلم قومیت کا تصور ٹھیک تھا-اول الذکر کو مودودی شہاب نے الحاد اور کفر قرار دے دیا جبکہ دوسرے تصور کو گمراہی ،جہالت قرار دے ڈالا -مودودی صہب کے خیال میں مسلم قومیت کو کسی ایک سٹیٹ کے لئے محدود کرنا اور کسی ایک ریاست کی بنیاد قرار دیننا غلط تھا-وہ اس کو نسل پرستی سے تعبیر کر رہے تھے-"
مولانا مودودی صاحب کے شناختوں کی کثرت کے بارے میں اور ان کثرتوں سے بننے والی وحدت کے بارے میں عجیب و غریب خیالات تھے-وہ انسانوں کی لسانی ،ثقافتی شناختوں کو زبردستی ختم کرنا چاہتے تھے-ان کے ہاں اسلام ٹرانس نیشنل مذھب اسی صورت ہو سکتا تھا جب لوگ اس کو ماں کر اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے انکار کر دیتے-وہ ان لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر کسی بھی انتظمی انصرام کے لئے اکائی کے قیام کو اسلام کے خلاف گردانتے تھے-ان کے ہاں توحید کی وحدت کا مطلب ساری شنختون کو مٹا دینا تھا-اب یہ ایک ایسا تصور اور تعبیر تھی کہ جس کو پڑھ کر نا صرف سیکولر طبقہ حیران اور پریشان ہوا بلکہ روایتی مولوی بھی پریشان ہو گئے-
حسین احمد مدنی جو دو بندی مولویوں کے استاد تھے اور اس وقت کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی پارٹی جمعیت علماء ہند کے صدر بھی تھے مولانا مودودی کے ان خیالات سے بہت پریشان ہوئے تھے-انھوں نے ایل مضامین کا سلسلہ اپنی پارٹی کے ترجمان اخبار میں شروع کیا-یہ ووہی اخبار ہے جس کے کبھی مودودی صاحب بھی کو ایڈیٹر رہے تھے-اس مضمین کے سلسلے کو بعد میں کتابی شکل میں بھی شایع کیا گیا تھا-مدنی صاحب نے اپنے ان مضامین میں تفصیل کے ساتھ اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ قوم وطن اور علاقے کی بنیاد پر بنتی ہے-اور ہندوستان ایک علاقہ ہے اس کی بنیاد پر ہندوستانی قومیت بنتی ہے-یہ خلاف اسلام نہیں ہے-وہ کہتے تھے کہ مسلم قومیت نام کی کوئی چیز نہ تو قران سے ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی حدیث سے-ان کے نزدیک مسلم کے لئے ملت کا لفظ ٹھیک ہے جس کا انگریزی میں متبادل کمیونٹی ہو سکتی ہے نیشن نہیں-وہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی دونوں کے تصور قومیت کے خلاف تھے اور ان کے نزدیک بھی یہ دونوں تصورات اسلام کے خلاف تھے-جمعیت علماء ہند آج تک اپنے رہبر حسین احمد مدنی کے تصور کی پیروی کرتی آئے ہے-خود پاکستان میں جمعیت علماء کے کئے رہنما آج بھی اسی خیال کی حمایت کرتے ہیں-لکین پاکستان میں مذہبی سیاست کی بقاء ہی اب اس میں رہ گئی ہے کہ یہ لوگ اسلامی نظام کے نعرے لگاتے رہیں اور لوگوں کو بیوقوف بناتے رہیں-
مولانا مودودی مسلم قومیت کے جس ٹرانس نشنل تصور کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے -اس تصور کو جماعت اسلامی کا کوئی رہنما قبول کرنے کو تیار نہیں ہے-پاکستانی قومیت کی بنیاد مسلم قومیت پر ہے یہ ہے آج کی جماعت اسلامی کا نعرہ-اب بھلا ایک ریاست کے اندر مسلم قمیت کو محدود کرنا مودودی کے ہاں تو گمراہی تھی اور جماعت اسلامی اس کو اسلام کے مطابق قرار دیتی ہے-لطف کی بات یہ ہے کے حسیں احمد مدنی کے مرید اور ان کی پارٹی کی باقیات بھی اسی کو ٹھیک قرار دے رہی ہے-یہ سب باتیں نئے نسل کو تو پتا نہیں ہیں-ان کو یہ نظریات بیچتے ہوئے جماعت اسلامی اور جمعیت والے یہ کہتے ہیں کہ یہ اقبال اور جناح کے نظریات کی تفصیل ہے-اگر ان کو یہ بتا ہو کہ خود جناح اور اقبال کا مدودیت اور احمد حسین مدنی کے تصور قومیت بارے کیا خیال تھا تو وہ ان نظریات کو کوڑیوں کے مول بھی لینا پسند نہ کریں-ان دونوں جماعتوں کو سر سید احمد خان سے بہت چڑھ ہے-اسی لئے جب بھی مودودی کی وفات یا مدنی کی وفات کا دن آتا ہے تو ان کے دانشور جو بھی مضمون لکھتے ہیں تو سر سید کے خلاف بہت کچھ لکھتے ہیں-کیوں کہ سر سید احمد خان نے اس مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی تھی جس نے یہ کہا تھا کہ زبان اور کلچر کی بنیاد مذھب پر نہیں ہوتی ہے-نہ ہی اس کی بنیاد کلی طور پر مذھب پر قرار دی جا سکتی ہے-انھوں نے مغرب اور مشرق میں تہذیب اور کلچر کو باہم متصادم نہیں بیا نلکہ ان کو ہم آہنگ قرار دیا اور ان کے درمیان لینے دینے کے رشتے کو واضح کیا-سید مودودی اور حسین احمد جیسے قبیل کے مولویوں کو یہ نارضگی تھی کہ سر سید نے جدید علوم کے بارے میں ان کے تعصّبات کا پردہ چاک کر کے ان کی پیش وائیت کو سخت نقصان پہنچایا تھا-اقبال کی ایک کتاب ہے "تشکیل جدید الہایات اسلام میں "اس کتاب کو جماعت اسلامی آج تک اپنے رسالوں اور جریدوں میں کبھی لیکر نہیں آئی-مودودی کو اقبال کے نظریات کا شارح قرار دینے والی نے آج تک اس کتاب میں اقبال کے تصور اجتہاد ،کلچر ،قانون سازی کو مودودی کے تصوارت کے ساتھ تقابل میں پیش نہیں کیا-ڈنڈی مارنا اور اپنی ہی تاریخ کو مسخ کرنا جماعت اسلامی کے لکھاریوں کا وتیرہ رہا ہے-ان کی اس مسخ شدگی کو بےنقاب ماضی میں ترقی پسند دانش واروں نے خوب کیا-اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ترقی پسند دانش ور ان کی ایک ایک بات کو ریکارڈ پر رکھتے تھے-وہ ان کے خیالات و افکار اور پھر اقدامات کا بھی جائزہ لیتے رہتے تھے-آج جماعت کو جواب دینے والا کوئی سبط حسن یا صفدر میر نہیں ہے-جو ان کو آئنہ دکھائے-سب سے زیادہ ستم یہ ہوا ہے کہ اردو مائدہ پر قدامت پرست قببز ہیں تو انگریزی میڈیا پر آنے والے نوجوان ترقی پسند مودودی ،حسین احمد مدنی،اقبال.جناح سمیت ماضی کے سارے لٹریچر اور تاریخ کو پڑھنے سے قاصر ہیں-اردو میں تو ان کو پڑھنا اپنی شان کے خلاف لگتا ہے-ان کے ہاں بھی تقابل کا رجہان ختم ہو گیا ہے-یہ تو ان کے نام اردو میں ٹھیک سے نہیں لی سکتے کیونکہ ان ناموں کو بھی انگریزی میں پڑھا ہوتا ہے-
اب کتنے لوگوں نے پروفیسر سرور کی کتابوں کو پڑھا ہوگا کہ اس کو معلوم ہو کہ مودودی کو عقل کل کے طور پر پیش کرنے والوں کو بتا سکیں کے مودودی کے فہم دین کی حالت کیا تھی-اور اس کے بارے میں ثقہ علماء کیا کہتے تھے-مذہبی سیاست کے تضادات کی کہانی ایک زمانے میں پرویز صاحب نے خوب کھولی تھی-بہت سے لکھاری تھے ماضی میں جن کے ہاں ان نام نہاد اسلم پسندوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے لئے بہت کچھ تھا اور آج وہ سب موڈ پتا نہیں کہاں پڑا سڑتا ہوگا-مذہبی سیاست کے ان پنڈتوں کے تضادات کی کہانی کل بہت سارے لوگوں کو پتا تھی -آج اس کہانی کو چھپا دیا گیا ہے-جو لوگ ترقی پسندی اور روشن خیالی کو پھیلانے کا کام کرنا چاہتے ہیں -ان کو ان تضادات پر گھہری نذر رکھنا ہوگی-اور پھر اپنی صفوں میں ان بے رہ رو لوگوں کا چہرہ بھی بےنقاب کرنا ہوگا -جو پاکستان میں استحصالی طبقوں کو ان نظریات کا تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں-جو سامراج کو اس کے پیچھے بچانا چاہتے ہیں-جو سرمایہ داروں اور ان کے سرمایہ کو بچانے کے خہش مند ہیں جو حکمران طبقات کی لہرائے کو انتہا پسندی اور روشن خیالی کی جنگ بنانا کر دکھاتے ہیں-جو ایک ایمپائر کو ترقی پسندی کا محافظ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں-جو سرمےادری نظام کے محافظوں کو انتہاپسندوں کے خلاف آخری ڈھال بنا کے پیش کرتے ہیں-جن کے ہاں اگر امریکہ کا کوئی پٹھو بغل میں دو کتے پکڑ کر تصویر کھنچوا لے اور اس کو میڈیا پر بھیج دے اور کسی ڈانس پارٹی میں شراب کے نشے میں دھت ہو کر ناچنے لگے تو وہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کا امین ٹھہر جاتا ہے-یہ لوگ سامراج کے چوکھٹوں میں فیض،جالب ،سجاد ظہیر کی تصویریں سجانا چاہتے ہیں-اور برصغیر کی انقلابی ترقی پسند اور روشن خیال تحریک کو مسخ کرنا چاہتے ہیں-یہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کے جماعت اسلامی اور جمعیت سے زیادہ بڑے دشمن اور اس کے لئے خطرہ ہیں-

No comments:

Post a Comment