ہندوستان میں نقشبندی مجددی شاخ کا پھیلاؤ
ڈاکٹر آرتھر ایف بوہلر یونیورسٹی آف ولنگٹن نیوزی لینڈ کے اسکول آف آرٹ ہسٹری ، کلاسیک اینڈ ریلیجس اسٹڈیز میں سیئنر لیکچرر ہیں اور نقشبندی سلسلے کی شاخ " نقشبندیہ مجددیہ " پر ان کی ریسرچ کو دنیا بھر میں قبول عام ملا ہے اور حال ہی میں ان کی ایک کتاب
Revealed Grace : Jurist Sufism of Ahmad Sirhindi 1564 - 1624
شایع ہوئی ہے اور اس میں آرتھر نے شیخ احمد سرہندی کے ان مکتوبات کا ترجمہ اور ان مکتوبات کی لینڈ سکیپ اور ان کے مخاطبین کا حدوداربعہ تفصیل سے بیان کیا ہے جن میں شیخ احمد سرہندی نے اپنے صوفی خیالات کے ساتھ سیاست حاضرہ کو بھی ملایا ہے - ڈاکٹر آرتھر ایف بوہلر نے پوسٹ کالونیل صوفی روایت اور خصوصی طور پر پوسٹ کالونیل ہندوستان میں نقشبندی مجددی صوفی روایت پر بھی ایک معروف کتاب
Sufi Heirs of the Prophet: The Indian Naqshbandiyya and the Rise of the Mediating Sufi
معروف صوفی لکھاری این میری شمل کے ساتھ ملکر لکھی ہے ، میں نے ان کا ایک مقالہ ہندوستان میں نقشبندی مجددی سلسلے کا ارتقاء کو " شیخ احمد سرہندی " کے حوالے سے اپنی تحقیق کو آگے بڑھانے کے لئے چنا ہے جو " نقشبندی مجددی سلسلے " بارے ہمارے تاریخی شعور میں مزید کئی ایک باتوں کا اضافہ کرے گا
آرتھر ایف بوہلر کا کہنا ہے کہ
ابھی ٹھیک سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ نقشبندی سلسلہ جس کا نام خواجہ بہاء الدین نقشبند متوفی 1389ء / 791ھ کے نام پر پڑا اور اس کی اصل سنٹرل ایشیا ہے کیسے ہندوستانی پنجاب کے اندر ایک بااثر طریقہ کے طور پر پھیل گیا اور اس بارے میں بھی بہت کم تحقیق ہوئی ہے کہ وسط ایشیائی نقشبندی روایت کی جگہ کیسے ہندوستانی پنجابی نقشبندی مجددی شاخ نے لے لی اور میں نے اپنے مقالے میں ان دو سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے
نقشبندی صوفی ہندوستان میں تیموری فتوحات کے ساتھ آئے جوکہ 1600ء / 10ویں صدی ھجری میں ہوئی تھیں اور اسی صدی میں شیخ احمد سرہندی متوفی 1624ء / 1034ھ نے نقشبندی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا
شیخ احمد سرہندی نے نقشبندی سلسلے کی ازسرنو تعریف متعین کی اور سلوک نقشبندیہ میں عملی و نظری اعتبار سے نئی جہات متعارف کرائیں اور ان کو جو " مجدد الف ثانی " کا لقب دیا گیا وہ بھی ان کے بعد آنے والوں پر ان کے اثر کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور ان کے بعد میں آنے والوں نے ان کی روایت کو نقشبندی مجددی شاخ کا نام دیا
نقشبندیوں کے ہندوستان مين دیرپا اثرات کا براہ راست تعلق ان کے مربوط تصور مذھبی قیادت سے ہے اور نقشبندیوں نے ہندوستان میں موجود دوسرے صوفی سلسلوں کے مقابلے میں سیاسی معاملات پر اثرانداز ہونے کی کوشش زیادہ کی اور انہوں نے حکمران کو صوفی رہبر شریعت کے طور پر متارف کرایا تاکہ ہندوستان کی مسلم برادری میں سرکاری سطح پر مسلم سماجی اداروں کی نیو ڈالی جاسکے اور نقشبندی مجددی شاخ سے وابستہ صوفیوں نے اپنے آپ کو داخلی و خارجی ، شخصی و غیر شخصی اعتبار سے تصوف اور ریاست کی تشکیل نو کے لئے وقف کردیا اور یہ اسی وقف کرنے کا اثر تھا جس نے سترھویں صدی عیسوی میں ہندوستان کے اندر مذھبی کرسٹلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھایا اور اس نے ہندوستان کے مسلم برادری کے اندر بہت سے رجحانات کو جنم دیا اور پاکستان کے قیام میں بھی اسی کرسٹلائزیشن نے اپنا کردار ادا کیا
نقشبندی مجددی قیادت نے ہندوستان میں ماقبل نوآبادیاتی ادوار کے اندر صوفی اور جیورسٹ دونوں کو ایک ہی شخصیت میں اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور یہ پروسس تیز سے تیز تر ہوتا چلاگیا ( شاید اورنگ زیب کے زمانے میں صوفی و قاضی دونوں کے ایک ہی شخص مین اکٹھا ہونے کا مظہر اپنی بلوغت کو پہنچ گیا تھا ) اور نقشبندی مجددی سلسلے کے اندر روحانی اتھارٹی کے ساتھ ساتھ " مذھبی پیشوائی اتھارٹی " کو حاصل کرنے کا رجحان بھی طاقتور ہوگیا
ہندوستان میں نقشبندیوں کی آمد
تاریخی اعتبار سے نقشبندی سلسلے کے پھیلاؤ کو ہم تین بڑے ممتاز مراحل میں بانٹ سکتے ہیں اور ہر ایک مرحلہ ایک ممتاز نقشبندی شخصیت کے ساتھ منسلک ہے جس نے اس سلسلے میں تجدید کے فرائض سرانجام دئے
پہلے مرحلہ کو ہم " طریقہ خواجگان " کہہ سکتے ہیں اور اس کا آغاز خواجہ عبدالحالق متوفی 1179ء / 575ھ سے ہوتا ہے
دوسرا مرحلہ خواجہ بہاءالدین نقشبند سے شروع ہوتا ہے
تیسرا مرحلہ شیخ احمد سرہندی سے شروع ہوتا ہے اور یہاں پر یہ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کہلانے لگتا ہے
ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کو پھیلانے میں اولین کردار خواجہ نصیر الدین عبیداللاحرکر متوفی 1490ء / 895ھ کے خلفاء و اولاد وامجاد کا ہے خواجہ عبیداللہ کے مریدان اور خلفاء و اولاد نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ایران ، ترکی اور بلاد عرب میں بھی نقشبندی سلسلے کے پھیلاؤ کا سبب بنے
خواجہ عبیداللہ احرار خراسان کے سب سے بڑے جاگیردار ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقی تیموری سلطنت کے ڈیفیکٹو حکمران بھی خیال کئے جاتے تھے اور یہ خواجہ احرار تھے جنھوں تیموری حکمرانوں سے اپنے تعلقات کو سلسلہ نقشبندیہ کی ترویج و اشاعت کے لئے استعمال کیا اور خواجہ عبیداللہ احرار نے اسلامی قوانین و شریعت کو اپنے علاقے میں ترک - منگول رواج اور قانون سے مطابقت دینے کي کوشش بھی کی
احرار خاندان تھوڑی سی مشکلات کا شکار اس وقت ہوا جب تیموری حکمرانی کا پہلا دور ختم ہوا اور شیبانی بادشاہت آئی تو اس کے پہلے حاکم محمد شیبانی نے نہ صرف احرار خاندان کی جاگیر ضبط کرلی بلکہ احرار کے ایک بیٹے خواجہ یحیحی اور خواجہ کے تین پوتوں کو قتل کے الزام میں گرفتار بھی کیا لیکن یہ دور عتاب تھوڑی دیر چلا اور پھر شیبانی سلطنت سے احراری نقشبندی خاندان کے تعلقات بہتر ہوگئے اور سمر قند سے آنے والی بادشاہت اور پھر بخارا سے شروع ہونے والی بادشاہت ازبک سے بھی اس خاندان کے اور نقشبندیوں کے تعلقات بہتر رہے
تیموری فرمانروا ظہیرالدین بابر متوفی 1530ء / 937ء سے احرار نقشبندی خاندان اور خلفاء کے تعلقات ابتداء سے ہی بہت گہرے تھے اور بابر کے کابل پر قبضہ سے پہلے ہی احرار کی اولاد و خلفاء کابل منتقل ہوگئے تھے بابر کو فتح دھلی کی پیشن گوئی بارے کہا جاتا ہے کہ وہ خواجہ احرار نے کی تھی - ہمایوں متوفی 1556ء / 963ھ کے کزن مرزا حیدر متوفی 1530ء / 937 ھ کے مطابق خواجہ اخوند محمود عرف خواجہ نورا نے بابر کے بیٹے مرزا کامران کے لئے فتح قندھار کا خواب دیکھا تھا اور جب ہمایوں نے خواجہ نورا سے بدسلوکی کی تو کہا جاتا ہے کہ اس نے ہمایوں کی شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کی پیشن گوئی کی ، ہمایوں بادشاہ خواجہ بہلول کا عقیدت مند تھا جوکہ خواجہ غوث قادری شطاری گوالیاری متوفی 1562ء / 970ھ کے بڑے بھائی تھے
یہ امثال ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے بعض صوفیاء اپنے دور کی سیاست اور سیاسی گروہ بندیوں پر اثر انداز ہوا کرتے تھے اور اس سے نقشبندی سلسلے اور تیموری فوجی کامیابیوں کے درمیان تعلق کی عکاسی بھی ہوتی ہے اور تیموری دور میں بھی ہمیں صوفی شیخ کے لئے روحانی دنیا پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات پر بھی اثر انداز ہونے کی طاقت و صلاحیت رکھے جانے کا عقیدہ ملتا ہے
نقشبندی اور تیموری حکمرانوں کے درمیان تعلقات کی کئی ایک اطراف ہیں - خواجہ معین الدین عبدالحق متوفی 1554ء / 962ھ جوکہ خواجہ نورا کے بڑے بھائی تھے مرزا کامران کے روحانی استاد تھے - اکبّر کا اتالیق بیرم خان ایرانی نقشبندی صوفی مولانا ضیاءالدین کمانکر کا مرید تھا - ہمایوں کے دور میں خواجہ احرار کے پوتے خواجہ عبدالکافی اور خواجہ قاسم حکومتی مناصب پر فائز رہے - نقشبندی صوفی خواجہ عبدالشاہد کا مرید سلطان خواجہ نقشبندی اکبّر کے زمانے ميں زمانے مین وقف اور جاگیریں عطا کرنے کے منصب پر فائز رہا جبکہ محمد یحیحی اپنے والد ابو فیض نقشبندی کے خلیفہ مجاز بنے اور 1590ء / 999ھ میں اکبّر کی جانب سے امیر حج مقرر ہوئے - نقشبندی صوفیوں نے اس طرح سے تیموری حاکموں کو جواز حکمرانی کی سند فراہم کی تو جواب میں تیموری حکمرانوں نے نقشبندیوں کو اپنا سیاسی - سماجی مرتبہ محفوظ کرنے میں مدد فراہم کی اور یہ دو طرفہ تعاون تھا
احرار نقشبندی خاندان کے لوگوں کی شادیاں بھی تیمری خاندان کے اندر ہوئین - بابر کی ایک بیٹی خواجہ نور الدین نقشبندی سے بیاہی گئی تو بیرم خان اتالیق اکبّر کی شادی خواجہ نور الدین کی بیٹ؛ سے ہوئی اور جب بیرم خان فوت ہوا تو اکبّر نے خواجہ نور الدین کی بیٹی سے شادی کرلی جبکہ ہمایوں کی ایک بیٹی کی شادی خواجہ حسن نقشبندی سے ہوئی تو تیموری اور احراری خاندان کی ان باہم شادیوں نے بھی افغانستان اور شمالی ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا
ایک اور دانشور مورخ
Stephn Dale
نے نوٹ کیا کہ نقشبندی - تیموری تعلقات اور شراکت داری نقشبندیوں ، ترک منگول اور افغان اشراف کے درمیاں جنوبی ایشیاء کے مغل علاقوں میں انیسویں صدی تک جاری رہی اور جب نقشبندی زعماء افغانستان اور سنٹرل ایشیا سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تو ان کے ساتھ یہاں سرکاری نوازشات کے ساتھ سلوک کیا گیا - 18 ویں صدی میں شیخ احمد سرہندی کی اولاد و خلفاء کے افغانستان کے امراء و اشراف سے گہرے سمبندھ تھے اور جب 1764ء / 1177ھ میں سکھوں نے سرہند کو فتح کیا تو ان کی ہجرت انہی تعلقات کی وجہ سے آسان ہوئی
ہندوستان برصغیر پاک وہند میں ابتداء میں احرار نقشبندیوں کے ہی تیموری حکمرانوں سے تعلقات تھے جبکہ دوسرے نقشبندیوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں تھا ، وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح خراسان سے جحاز کی طرف سفر حج کرتے اور اکثر حج کے بعد حجاز کے راستے میں پڑنے والے بڑے شہروں بخارا ، کابل ، لاہور ، آگرہ اور سورت میں رہ پڑتے تھے - مثال کے طور پر خواجہ جمال الدین عرف بادشاہ پردہ پوش خوارزمی متوفی 1606ء / 1015ھ نے سفر حج کے بعد سورت بندرگاہ پر ڈیرہ ڈالا - یہ خواجہ دانا کے نام سے بھی مشہور تھے اور یہ خواجہ اسلام جبیری متوفی 1564ء / 971ھ کے مرید ہوگئے یہ بلخ گئے اور پھر ٹھٹھہ ، آگرہ اور آحر میں سورت قیام پذیر ہوئے -بعض نقشبندی تلاش روزگار میں کابل سے ہندوستان آئے جیسے خواجہ عبداللہ کابلی نقشبندی جوکہ خواجہ لطف اللہ متوفی 1571ء / 979ھ کے مرید و خلیفہ تھے تلاش روزگار میں ہندوستان آئے تو اکبّر نے ان کو ضلع تربت میں مذھبی علوم کا استاد مقرر کردیا
خواجہ باقی باللہ متوفی 1603ء / 1012ھ نقشبندی تاریخ کے دوسرے اہم مرحلہ میں سب سے اہم ترین شخصیت ہیں اور احمد سرہندی کے مرشد ہونے کے ناطے ان کی اہمیت اور دوچند ہوجاتی ہے اور خواجہ باقی باللہ 16ویں صدی عیسوی / 10ویں صدی ھجری کے ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کے سب سے اہم صوفی ہیں
خواجہ باقی باللہ بچپن سے ہی سلسلہ نقشبندیہ سے واقف تھے کیونکہ ان کے دادا جان نقشبندیہ سلسلے کے معروف پیشوا خواجہ محمد زکریا کے بیعت تھے اور وہ خواجہ عبید اللہ احرار کے پوتے تھے اور ان دونوں خاندانوں کے درمیان شادیاں بھی ہوئیں خواجہ باقی باللہ کی ملاقات کابل میں خواجہ عبداللہ کابلی نقشبندی سے ثابت ہے اور پھر وہ کامل مرشد کی تلاش میں ہندستان تک آئے اور ان کی ملاقات کشمیر میں کبراوی سلسلہ کے بزرگ شیخ علائی متوفی 1602ء / 1011ھ سے ہوئی جن کی خدمت میں خواجہ باقی باللّہ نے ایک عرصّہ گزارا اور پھر وہ سمرقند گئے جہاں ان کی ملاقات خواجہ امکنگی متوفی 1600ء / 1008ھ سے ہوئی اور وہ بس ان کے ہی ہوکر رہ گئے اور یہاں پر وہ درجہ ولایت تک پہنچے -اپنے شيخ کی ایک سال وفات کے بعد وہ لاہور چلے ائے اور اس کے بعد وہ دلّی آئے اور فیروزی قلعہ کے سامنے انہوں نے " خانقاہ " کی بنیاد رکھی جس کی تعمیر کے سارے اخراجات اکّبر بادشاہ کے وزیر شیخ فرید بخاری نے برداشت کئے
خواجہ باقی باللہ کا دلّی میں قیام مختصر ثابت ہوا اور وہ محض 40 سال کی عمر میں ہی انتقال کرگئے لیکن اس دوران انہوں نے کئی لوگوں کو درجا ولایت پر فائز کیا - ان کے سیئنر ترین خلیفہ خواجہ تاج الدین سنبھلی متوفی 1641ء / 1050ھ خواجہ باقی باللہ کی وفات کے بعد حجاز منتقل ہوگئے اور ان کے مریدوں نے سلسلہ نقشبندیہ کو مصر اور یمن تک پھیلادیا
جبکہ خواجہ باقی باللہ کی گدی ان کے دوسرے بڑے خلیفہ خواجہ حسّام الدین متوفی 1633ء /1043ھ نے سنبھالی اور انہوں نے خواجہ باقی باللہ کے کم عمر بچوں خواجہ کلاں اور خواجہ میر خورد کی پروش کی ان کی شادی اکبّر کے وزیر ابوالفضل کی بہن سے ہوئی تھی اور یہ ہزاری منصب دار تھے اور بعدازاں خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں ہی آگر رہ گئے تھے
خواجہ باقی باللہ جب دھلی آئے تو اس وقت تک اکبّر بادشاہ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر کئی مرتبہ حاضری دے چکا تھا اور 1564ء/ 972ء میں وہ مزار پر پیدل حاضری کی منت بھی پوری کرچکا تھا اور اکبّر نے ایک اور چشتی بزرگ حضرت سلیم چشتی متوفی 1571ء / 971ھ کے دربار پر حاضری دی تھی اور یہاں پر حاضری کے نتیجہ میں اس کے بقول اس کا بیٹا سلیم پیدائش کے بعد زندہ رہا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمایوں نے اپنے باپ بابر کے برعکس نقشبندی صوفیاء کو وہ مقام و مرتبہ نہ دیا جو پہلے وہ تیموری حکمرانوں سے لیتے آئے تھے اور اکبّر کے زمانے میں نقشبندی صوفی مزید مارجنلائز ہوئے اور چشتی صوفیاء کا اثر دربار پر بڑھا اور اکـّر سمیت مغل تیموری امرآء ایسی رسوم اور اشغال میں مشغول ہوئے جو نقشبندی صوفیاء کے ںزدیک ٹھیک نہ تھیں ، مغل دربار میں سماع کی محافل کا قیام شروع ہوا اور نقشبندی صوفیآء اور سخت گیر علماء کافی مارجنلائز ہوئے اور اکبر کی وفات کے بعد شیخ احمد سرہندی کو گئی بااثر افغان امراء کی حمایت بھی انہی حالات کے نتیجے میں ملی تھی
خواجہ احرار نے نقشبندی اور تیموری سلطنت کے درمیان تعلقات کی جو مثال قائم کی تھی اس کو ان کے ہندوستان میں پیش روؤں نے بھی قائم رکھا اور ہندوستان میں تیموری حکمرانوں اور نقشبندی صوفیاء کے باہمی تعلقات نے مغل سطنت کی اسلامی شناخت کے ایک خاص امیج کو ابھارنے میں مدد دی اور ہندوستان کی مسلم آبادی میں نقشبندی روایت کو جگہ بنانے اور پھیلنے میں بھی ان تعلقات نے اہم کردار ادا کیا
نقشبندی - تیموری تعلقات چودھویں صدی عیسوی میں مغل سلطنت کے اندر نقشبندی - افغان تعلقات کا سبب بنے - افغان امراء او نقشبندی صوفیاء کے درمیان رشتہ داریوں کا سلسلہ بھی چل نکلا -نقشبندی پیر بطور روحانی شیخ ہی حکمرانوں کی تربیت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا سیاسی کردار یہ تھا کہ وہ حکمران کو ترغیب و ترہیب بھی دیا کرتے تھے - نقشبندی صوفیاء نہ صرف سیاسی امور میں وعظ و نصحیت کا کام کرتے بلکہ وہ حکمرانوں کے فائدے کے لئے آسمانی مدد فراہم کرنے کے زمہ دار بھی خیال کئے جاتے تھے - اس طرح سے نقشبندی صوفیاء کا یہ دنیاوی اور روحانی کردار پر مبنی جو ورثہ تھا وہ ہندوستان منتقل ہوا اور یہاں پر بھی اس نے ہندوستانی اسلامی ورثے پر اپنے اثرات مرتب کئے
ماقبل 1857ء تک نقشبندی مجددی شاخ کا ہندوستان میں پھیلاؤ
ہندوستان میں شیخ احمد سرہندی سے نقشبندی سلسلے کی تاریخ کے تیسرے فیصلہ کن دور کا آغاز ہوتا ہے اور وہ مجدد الف ثانی کہلائے -اصل میں صوفیاء کے ہاں یہ حدیث موجود ہے کہ ہر ایک ہزار سال بعد ایک شخصیت جنم لیتی ہے جو دین میں تجدید و احیاء کا کام سرانجام دیتی ہے اور شیخ احمد سرہندی دوسری ہزاری کے مجدد کہلائے -شیخ احمد سرہندی جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا کہ وہ ایک چشتی صابری پیر و عالم کے گھر پیدا ہوئے تھے اور آغاز کار میں وہ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے ہی پیرو تھے لیکن ان کے خیالات میں اغلب یہ ہے کہ تبدیلی اس وقت آنا شروع ہوئی جب وہ سیالکوٹ میں ملّا عبدالحکیم سیالکوٹی کے مدرسہ میں پڑھنے گئے اور جب دھلی میں ان کی ملاقات خواجہ باقی باللہ سے ہوئی تو وہ مکمل طور پر نقشبندی سلسلہ کے ساتھ منسلک ہوگئے
آرتھر بوہلر کا خیال یہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی نے " نقشبندی سلسلہ " کو ازسر نو مرتب کرنے کا کام کیا - انہوں نے اس سلسلے میں نت نئی روحانی مشقیں متعارف کرائیں اور اسی لئے ان کے بعد نقشبندی سلسلے کی جو روایت ان سے آگے چلی اس کا نام بھی " مجددیہ " پڑ گیا - اور شیخ احمد سرہندی کے خیالات نے اپنے زمانے کے غالب صوفیانہ تناظر کے مقابلے میں ایک اور صوفی تناظر دیا
آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ شیخ احمد سرہندی کا صوفی تناظر " سنّی اسلام کی سخت حنفی و سخت کلامی تعبیر سے ملکر اور ان سے پیش رو ہندوستان و وسط ایشیا میں موجود نقشبندی صوفی روایت " سے زرا ہٹ کر بنایا گیا تھا - اور یہ ہندوستان میں اس وقت کی غالب " صلح کل اور تکثریت " کے رجحان پر بھی زد لگانے والا صوفی تناظر تھا -اور یہ تناظر شماریت پسند کم اور خارجیت پسند زیادہ تھا - اور اس تناظر کا اگرچہ اکبّر سے لیکر جہانگیر کے دور تک اور پھر شاہ جہاں کے دور تک اس قدر چرچا نہ تھا کہ ہم یہ کہیں کہ ہندوستان میں شیخ احمد سرہندی کے " صوفی تناظر " نے " وحدت الوجودی صوفی تناظر " کی جگہ لے لی تھی مگر پھر بھی یہ اس وقت کے مین سٹریم " صوفی تناظر " سے کہیں زیادہ یک نوعی تھا - شیخ مجدد کے صوفی تناظر کے جو ناقد ہیں وہ اس تناظر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس کے مغل امراء اور شہزادوں میں جو اثرات پڑے اور شیخ مجدد اور ان کی اولاد کے مغل دربار کے جن امراء اور وزراء پر اثرات ہوئے اور اس سے جو اتحاد ظہور پذیر ہوئے اس نے مغل سلطنت اور دربار میں جو " عالمگیریت " کا رجحان تھا اور جو سیکولر انداز تھا ، صلح کلیت کی طرف جو جھکاؤ تھا اسے دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا
آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ نقشبندی صوفی اورنگ زیب کی وفات تک مغل دربار پر اثرانداز ہوتے رہے جوکہ 1707ء / 1119ھ میں ہوئی اور نقشبندی مجددی شاخ کا اثر نہ صرف سیاست پر پڑا بلکہ اس نے ہندوستان میں نقشبندی سلسلے کی جو دوسری شاخیں تھیں ان کو بھی مغلوب کرلیا - آرتھر بوہلر جس بات کو اشاروں اور کنایوں میں کرگیا اس کو ہمیں کھل کر بیان کرنا چاہئیے کہ جیسے میں نے ابتدائی نقشبندی روایت پر شیخ ابن عربی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ابتدائی نقشبندی صوفی روایت کے خدوخال اور بعد کی مجددی شاخ کے خدوخال میں فرق دکھایا ، اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خواجہ باقی باللہ اور ان کے بیٹوں کی جو نقشبندی روایت ہندوستان میں تھی وہ وحدت الوجودی ، صلح کلی اور کسی حد تک تکثریت کے قریب تر تھی - اگر ہم شیخ احمد سرہندی اور خواجہ باقی باللہ کے درمیان خط وکتابت پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس میں " سیاست " بالکل زیر بحث نہ آئی بلکہ شیخ اپنی روحانی واردات قلب اور روحانی کشف وغیرہ بارے خواجہ باقی باللہ کو اطلاع دے رہے ہیں اور ان کے روحانی مرتبے اور مقام کا جو ارتقائی سفر ہے خواجہ باقی باللہ اسے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پھر اسی بنیاد پر ان کو اپنا سب سے قابل مرید گردانتے ہیں اور اکبّر کے دربار سے وابستہ امراء سے بھی شیخ کے ابتدائی روابط اسی روحانی کمال کی شہرت کے سبب ہوتے ہیں - شاید یہی وجہ تھی کہ اسرائیلی نژاد ڈچ سکالر یوحنان نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں سارا زور یہ بات ثابت کرنے میں صرف کیا کہ شیخ احمد سرہندی ایک " سیاسی مصلح " کے طور پر اپنی زندگی میں سامنے آنے کی بجائے ایک روحانی استاد کے طور پر سامنے آئے تھے اور ان کے جو روحانی دعاوی تھے ان کی بنیاد پر جہانگیر بادشاہ نے ان کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ان کو " ذھنی طور پر عدم توازن کا شکار " کہہ کر قید بھی کرڈالا تھا لیکن ان کے معتقدین افغان امراء کی سفارش اور مداخلت سے ان کو رہائی ملی - لیکن 1619ء میں جب شیخ احمد سرہندی کے لکھے مکتوبات کی دوسری جلد سامنے آئی تو شاہ جہاں نے ایک مرتبہ پھر شیخ احمد سرہندی کو قید کردالا کیونکہ ان پر الزام لگا تھا کہ اس کتاب میں ایک مکتوب میں انہوں نے خود کو مقام صدیقیت سے بھی اوپر والے مقام پر فائز بتلایا ہے - شاہ جہاں کو سرہند کے پنجاب میں پھیلتے اثرات کے سیاسی نتائج کا کچھ کچھ اندازہ ہوچلا تھا - اس نے سید آدمی بنوری متوفی 1644ء/ 1053ھ کو اس وقت سفر حجاز سے روکا جب اسے معلوم ہوا کہ لاہور میں دسویں ہزار افغان جنگجو ان کے حامی ہيں - اور بعد ازاں ایسے آثار ملتے ہیں کہ مغل دربار سے شیخ احمد سرہندی اور ان کی اولاد کے تعلقات ٹھیک ہوگئے - شیخ احمد سرہندی نے اپنے منجھلے بیٹے خواجہ محمد معصوم متوفی 1668ء / 1079ھ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور وہ قیوم دوم کہلائے - اپنے والد کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے خواجہ معصوم قیوم ثانی نے بھی شاہی خاندان کو خط لکھے اور ترغیب و ترھیب کا سلسلہ جاری رکھا - ایک روایت کے مطابق جب 1666ء میں شاہ جہاں کی وفات ہوئی تو اورنگ زیب عالمگیر نے سرہند کا دورہ کیا اور خواجہ معصوم قیوم ثانی سے ملاقات کی اور ان سے بیعت بھی ہوگیا - اورنگ زیب کے نقشبندی ہونے کا ثبوت خواجہ معصوم کے غیر مطبوعہ مخطوطات بھی ہیں - اور ان کا بیٹا حجۃ اللہ نقشبندی متوفی 1702ء / 1114ء کہتے ہیں کہ ایک زمانے تک اورنگ زیب نقشبندی اوراد و اشغال پر عمل پیرا تھا -
شاہ جہاں کی وفات کے بعد جب شاہ جہاں کے بیٹوں میں جانشینی کی جنگ فیصلہ کن مرحلے پر آن پہنچی تو اس وقت تک اورنگ زیب نے نقشبندی سلسلہ کی اس مجددی شاخ اور اس کے مرکز سرہند سے اپنے تعلقات انتہائی مضبوط کرلئے تھے - اورنگ زیب نے نقشبندی سلسلے کے قیوم ثانی خواجہ محمد معصوم سے مدد مانگی - خواجہ معصوم اور ان کے خلفاء نے نہ صرف اورنگ زیب کے لئے مغل دربار سے وابستہ افغان امراء کو حمایت کے لئے تیار کیا بلکہ مغل فوج میں کئی کمانداروں کی اورنگ زیب کے ساتھ شمولیت بھی خواجہ معصوم کی حمایت کے سبب تھی - اورنگ زیب خواجہ معصوم سے روحانی مدد کا طالب بھی تھا - اس سلسلے میں نقشبندی تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خواجہ معصوم نے اپنے بھتیجے شیخ ثناءالدین محمد سعید کے بیٹے اور اپنے بیٹے محمد اشرف کو جو حج پر جانے کی تیاری کررہے تھے کو اورنگ زیب کے پاس بھیجا تاکہ اورنگ زیب کے ساتھ نقشبندی مجددی حمایت نظر آئے جبکہ خواجہ معصوم اور ان کا بڑا بیٹا صبغت اللہ مکّہ چلے گئے - صبغت اللہ نے مکّہ میں علماء و صوفیاء سے ملاقات کی اور ان سے اورنگ زیب کی فتح کے لئے دعا کے لئے کہا - صبغت اللہ کو بعد ازاں خواجہ معصوم نے بغداد روانہ کیا اور شیخ عبدالقادر جیلانی کے مزار پر حاضری دینے کو کہا - مقصد یہ تھا کہ صبغت اللہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی روح سے رابطہ کریں اور ان سے دارشکوہ کی مدد نہ کرنے کو کہیں کیونکہ دارشکوہ سلسلہ قادریہ میں حضرت میاں میر قادری شطاری کا مرید خاص تھا - نقشبندی مجددی سلسلے سے وابستہ لوگوں نے اسی زمانے میں یہ دعوی بھی کیا کہ دار شکوہ کا سلسلہ قادریہ سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے کیونکہ وہ دین سے ہی باغی ہوگیا ہے - اس کا تعلق اب شیخ عبدالقادر جیلانی سے بھی نہیں رہا اور اس کے بارے میں یہ بھی مشہور کیا گیا کہ اس نے اپنے نام کے ساتھ قادری لکھوانا ترک کردیا ہے - گویا نقشبندی مجددی سلسلہ کے لوگ ہندوستان والوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے تھے کہ دار شکوہ اور اس کی فوج کے ساتھ کسی کی روحانی مدد نہیں ہے - شیخ عبدالقادر جیلانی جوکہ " غوث اعظم " کے نام سے مشہور ہیں اور قادری سلسلے میں ہی نہیں بلکہ اس زمانے کے ہندوستان بھر میں " غوث پاک " کو ہر مشکل میں پڑے آدمی کی مدد کو پہنچنے والا بتایا جاتا تھا تو جب دارشکوہ اور اس کی فوج کا اورنگ زیب سے مقابلہ ہوا تو اس وقت اورنگ زیب کی فوج اور ہندوستان کی عام جنتا کو نفسیاتی اعتبار سے یہ یقین دلانا ضروری تھا کہ " شیخ عبدالقادر جیلانی " کی مدد اورنگ زیب کے ساتھ ہے نہ کہ دار شکوہ کے ساتھ - اس بات سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ حریف مغل شہزادے ، مغل دربار سے وابستہ اور عوام الناس کے اندر " صوفیاء کرام " کے دنیاوی حوادث کا رخ موڑنے اور کسی بھی لڑائی کے نتیجے کو اپنے پیارے کی جانب موڑ لینے کی طاقت کا خیال کتنا طاقتور تھا
آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ دار شکوہ قادری کی شکست اور اس کو بے دین قرار دیکر مصلوب کئے جانے کے بعد اورنگ زیب کی فتح ایک طرح سے مغل سلطنت کی طرف سے " صلح کلیت " کی پالیسی اور سیکولر ، روادار رجحان کے زوال پذیر ہوجانے کا اعلان تھا اور یہ مغل دربار اور اس کی پالیسیوں پر " وحدت الوجودی صوفی تناظر " کے غالب اثر اور چھاپ کے خاتمے کا اعلان بھی تھا - یہ دور مغل سلطنت میں کٹّر پنتھی ، سخت گیر ، خارجیت پسند سنّی اسلام اور تنگ تعبیر پر مبنی فقہ کے تسلط کا دور بھی تھا جس میں انتہائی قدامت پرست ملّا اور ان کی جامد فقہ کو بہت زیادہ حثیت مل گئی - سرہند اور دھلی میں نقشبندی مجددی صوفیاء کو اورنگ زیب کے دربار میں مرکزی حثیت مل گئی اور اورنگ زیب نے تاریخ میں پہلی مرتبہ نفشبندی صوفیاء کو کثرت سے درگاہوں کے لئے جاگیریں دینا شروع کردیں اور ان عطیات زمین نے اکثر نقشبندی صوفیاء کو خوشحال کردیا - لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود اورنگ زیب عالمگیر روائتی علماء کے ایسے گروپ کے زیر اثر آگیا تھا کہ " تصوف " سے ہی اس کا دھیان ہٹ گیا اور اس کا کچھ کچھ انداہ ہمیں ایسے ہوتا ہے کہ اس نے علماء کے کہنے پر " مکتوبات " پر پابندی لگادی اور ایک مدت بعد غاس نے نقشبندی وظائف ، ورد اور اشغال کو بھی ترک کردیا -نقشبندی صوفیاء کے سیاسی اثر نے جہاں خود مغل طاقت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی وہاں پر مغل حکمرانوں نے اس کا سخت ردعمل دیا
مابعد اورنگ زیب دور : شاہ ولی اللہ اور میر درد
بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ہندوستان کی تاریخ کا ایک اور منفرد دور شروع ہوا - اس دور کی سب سے بڑی انفرادیت یہ تھی کہ مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور ہندوستانی سماج میں ہندؤ ، سکھ اور مسلمانوں کے بہت سے طاقتور گروہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ جمانے کی کوشش کررہے تھے اور مغل سلطنت کے انتشار کے دوران ابھرنے والی تین طاقتیں سکھ ، مرہٹہ اور افغان روھیلہ مسلم کے درمیان ایک کشاکش جاری تھی اور اس کا ایک اظہار فرقہ وارانہ شکل میں بھی ہورہا تھا -
جب 1707ء میں اورنگ زیب کی وفات ہوگئی تو نقشبندی مجددی سلسلے کے جو جانشین تھے وہ بہت طاقتور روحانی خانوادے بن چکے تھے - ان طاقتور نقشبندی مجددی روحانی خانوادوں ميں سے ایک خانوادہ شاہ ولی اللہ متوفی 1762ء / 1176ھ کا بھی تھا -آرتھر وہلر کہتا ہے کہ شاہ ولی اللہ نے شیخ مجدد الف ثانی احمد سرہندی کی نقشبندی مجددی شاخ سے جو ریفارم ازم شروع ہوا تھا اسے مزید آگے کی طرف پہنچایا - شاہ ولی اللہ نے اصل میں شیخ احمد سرہندی کی روایت کا جو مغز تھا اس کی بنیادیں حدیث ، فقہ ، تفسیر اور تصوف میں انتہائی گہرائی مين جاکر تلاش کرنا شروع کیں اور اس طرح سے انہوں نے نقشبندیہ مجددیہ سلسلے کے اندر شاہ ولی اللہی نقشبندی مجددی شاخ کی نیو ڈالی -
میں جب شاہ ولی اللہ کی جملہ تصنیفات اور مکتبوبات کو پڑھتا ہوں اور ان کے مکتوب مدنی کو دیکھتا ہوں تو مجھے نظر یہ آتا ہے کہ شاہ ولی اللہ نے شیخ احمد سرہندی کی طرح یہ نہیں کہا کہ وحدت الوجود غلط ہے اور شیخ ابن عربی کو رد کردیا ہو بلکہ شاہ ولی اللہ کے ہآن مجھے نظر یہ آیا کہ انہوں نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے درمیان ایسا تطابق تلاش کیا کہ جس سے وحدت الشہود یعنی شیخ احمد سرہندی کا نظریہ ہی حقیقت الحقائق کے طور پر ابھرتا ہے اور وہ ایک طرح سے " اورنگ زیب کے دور کی جو سرکاری مذھبی روح " ابھری تھی اور اس کی جو باقیات تھی اس کو زرا جدت کے ساتھ ایک تحریک کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے
شاہ ولی اللہ کے ہی ایک اور معاصر نقشبندی صوفی شاعر میر درد متوفی 1784ء / 1199ء دھلی میں تھے - میر درد کے والد میر ناصر عندلیب متوفی 1759ء /1172ھ بھی نقشبندی مجددی صوفی تھے -اور یہ شاہ سعید اللہ گلشن متوفی 1728ء / 1140ھ کے خلیفہ مجاز تھے - میر درد وہ پہلے صوفی تھے جنھوں نے اپنے طریقہ تصوف کو " طریقہ محمدیہ " کا باضابطہ نام دیا - 19 ویں صدی ميں شمالی افریقہ میں ادریسیہ و سنوسیہ سلسلے والوں نے اپنے طریقہ کو طریقہ محمدیہ کا نام دیا اور ہندوستان میں میر درد کے بعد سید احمد رائے بریلی متوفی 1831ء / 1247ھ نے بھی اپنے طریقہ کو طریقہ محمدیہ کا نام دیا -
مجددیہ اور دوسری نقشبندی شاخیں
ہندوستان میں مجددی شاخ کے ساتھ ساتھ نقشبندی سلسلے کی دیگر آٹھ شاخیں بھی موجود تھیں -شاہ ولی اللہ نے ایک جگہ ان نقشبندی ذیلی شاخوں کے بارے میں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اور پھر شاہ ولی اللہ نے ان آٹھ شاخوں سے ہٹ کر نقشبندی مجددی شاخ کو اپنایا اور اس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ بہت پاک صاف ، روشن ، واضح اور سب سے زیادہ ماحی سنت و مخالف بدعت ہے - شاہ ولی اللہ کے ںزدیک نقشبندی مجددی شاخ وہ سلسلہ طریقت ہے جو ایک طرف تو سختی سے خود کو شریعت کی حدود میں رکھتا ہے اور دوسری طرف یہ اخلاق و عادات میں آپ کو سلف کے قریب تر کرتا ہے -
شيخ ابوالعلاء اور خواجہ باقی باللہ کی اولاد سے ہندوستان میں جو نقشبندی شاخیں سامنے آئیں وہ آلات موسیقی کے ساتھ سماع کا اہتمام کرتیں اور حالت وجد میں صوفیانہ رقص بھی کرتی تھیں اور اسے روحانی ترقی کا زریعہ خیال کرتیں تھیں - شیخ ابو العلاء کی نقشبندی شاخ نے ایک طرح سے خواجہ عبیداللہ کے زکر اور چشتی صوفیاء کے سماع و رقص کو ملاکر اپنا ایک طرز ایجاد کیا تھا لیکن یہ دونوں شاخیں جنوبی ایشیآء میں زیادہ نہ پھیل سکیں - اٹھارویں صدی عیسوی میں خواجہ باقی باللہ کی غیر مجددی شاخ بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور یہ بھی اس میں ہی مدغم ہوگئی -خواجہ خوند محمود متوفی 1642ء / 1052ھ کی لاہور ميں غیر مجددی شاخ کافی پھیلی مگر اچانک یہ بھی معدوم ہوگئی ، اسی طرح اورنگ آباد میں بابا شاہ محمد مسافر متوفی 1714ء / 1126ھ کی غیر مجددی شاخ کافی پھیلاؤ رکھتی تھی لیکن یہ بھی ختم ہوگئی - شيخ احمد سرہندی کی وفات کے ایک سو سال کے اندر اندر مجددی نقشبندی شاخ نے دوسری غیر مجددی شاخوں پر بالادستی قائم کرلی تھی
شیخ احمد سرہندی کو امر کرنے میں ایک محدود سا کردار اس مجددی نقشبندی لٹریچر کا بھی ہے جو شیخ احمد سرہندی کی وفات کے بعد سامنے آیا - شيخ احمد سرہندی کی وفات کے بعد محمد ہاشم کشمیری بدخشانی نے " زبدۃ المقامات " ترتیب دی - اس سے پہلے خواجہ بدرالدین سرہندی متوفی 1648ء / 1057ھ نے " حضرات القدس " ترتیب دی - ابو الفیض الحسن متوفی 1790ء / 1152ھ نے " روضات القیومیہ " لکھی - لیکن سب سے بڑا کارنامہ شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات ہیں - یہ 536 مکتبوبات ہیں جو شیخ احمد سرہندی نے لکھے اور ان کی خوب ، خوب شہرت ہوئی - کسی اور نقشبندی شاخ میں آنے والی نسلوں کے لئے اتنی بڑی تعداد میں لٹریچر موجود نہيں ہے اور نہ ہی اس طرح کی علمی تدوین کی روایت ان کے ہاں نظر آئی -
شیخ احمد سرہندی کے مکتبوبات کی کتاب کی شہرت ، اثر اور پھیلاؤ کا اگر ہندوستان میں کسی صوفیانہ کتاب سے مقابلہ و موازانہ کیا جاسکتا ہے تو وہ امیر حسن سجزی کی کتاب " فواد الفئواد " ہے جو کہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے ملفوظات ہیں - شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات اگرچہ متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں لیکن ان کو ّرھنے کے لئے علوم اسلامی کی بنیادی شد بدھ لازم ہے اور نقشبندی مجددی صوفیانہ ٹرمنالوجی سے واقفیت بھی ضروری ہے - مکتوبات کا موضوع انتہائی دقیق اور یہ 200 افراد کے نام لکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کی شناخت ممکن نہیں ہے -آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ مکتوبات کوئی آسان کتاب نہ ہے کہ عام آدمی اس کو بنا کسی مشکل سے پڑھ سکے تو اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عام آدمی میں نقشبندی سلسلے کی مقبولیت کا سبب " مکتوبات " کا درک نہیں ہے
مکتوبات کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ ان مکتوبات میں شاید کسی باقاعدہ سیاسی آئیڈیالوجی کو پیش کیا گیا اور طاقتور دلائل کے ساتھ یک نوعی اور تنوع مخالف تصورات پیش کئے گئے ہونگے لیکن ایسا نہیں ہے - ان مکتوبات میں زیادہ تر شیخ احمد سرہندی نے نقشبندی مجددی روحانی مشقوں ، وظائف اور واردات قلبی ، روحانی مقامات پر کمنٹری اور ہدایات دیں یا یہ اپنے شیخ باقی باللہ کو اپنے تجربات روحانی ، مشاہدات سے باخبر رکھنے اور اپنے خیالات پیش کرنے تک محدود ہیں اور ان مکتبوبات میں شریعت کہيں اگر زیر بحث آئی بھی تو وہ ٹھیک حنفی اعمال کو واضح کرنے تک محدود ہے اور ساتھ ساتھ شیخ مجدد کی اپنی وضح کردہ جو روحانی مشقیں ہیں اور صوفی خیالات ہیں ان کی نظیر ابتدائی نقشبندی روایت اور خود اسلامی روایت سے ڈھونڈ کر لانے پر مشتمل ہے - مجددی شاخ کا جو علمی اور ادبی ورثہ ہے اس کے مقابلے میں ہمیں خواجہ باقی باللہ ، شیخ العلاء پلنگ پوش ، بابا شاہ محمد مسافر اورنگ آبادی ، خواجہ محمود خوند کے ہاں نظر نہیں آتا اور اس لئے یہ شاخیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غائب ہوگئیں
غدر کے نتائج اور نقشبندیہ مجددیہ کا پھیلاؤ 1857ء سے 1947ء تک
نقشبندیوں کا حکمرانوں پر اثر اس وقت زائل ہوا جب ہندوستان میں باقاعدہ برطانوی نوآبادیاتی دور حکمرانی شروع ہوگیا - 1803ء / 1217ء میں برٹش نے مرہٹہ کو دلی سے نکال باہر کیا اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور اس کی بچی کچھی سلطنت کے بطاہر محافظ بن گئے - 1949ء میں انگریز نے پنجاب پر قبضہ جمالیا اور 1849ء مين مغل نظام کے خلاف جو بغاوت ہوئی تھی اس کے بعد کسی کے دل میں مغل قانون کا احترام نہ تھا اور پھر اس کے نتیجے میں مغل بادشاہ رنگون بھیج دیا گیا - 1857ء کو جو غدر ہوا اس میں قربانی کے بکرے مسلمان بنے اور انگریز نے سب سے زیادہ سزائیں مسلمانوں کو ہی سنائیں اور اس نے مغل زمانے کے جو ہائی پروفائل انسٹی ٹیوٹ تھے ان کو بری طرح سے متاثر کیا -1899ء تک بادشاہی مسجد کو تالا لگا رہا -1899ء تک یورپی برٹش حکمران جوتوں سمیت شاہی مسجد دلّی میں آنا اپنا حق سمجھتے تھے -
جنگ غدر 1857ء سے دلّی سب سے زیادہ متاثر ہوا اور اس سے خود نقشبندی سرگرمیاں دلّی اور اس کے گردو نواح میں بری طرح سے متاثر ہوئیں -دلّی میں سب سے بڑا نقشبندی مرکز خواجہ احمد سعید کی خانقاہ تھی جس میں چٹلی قبر مقبرہ مرزا جانجاں متوفی 1178ء / 1195ء اور غلام علی شاہ متوفی 1824ء / 1240ھ تھے اور 1858ء میں سعید احمد نقشبندی متوفی 1860ء / 1277ء کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر وہ مقیم دھلی رہے تو انگریز کی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ ضرور بن جائیں گے تو انہوں نے خفیہ طور پر چھپتے ، چھپاتے 1858ء میں اپنے سارے خاندان کے ساتھ حجاز ہجرت کرلی اور وہاں پر وہ صرف دو سال بعد 1860ء مين فوت ہوگئے اور 30 سال بعد ان کے پوتے ابوالخیر نقشبندی متوفی 1924ء / 1277ھ واپس دلّی آئے اور خانقاہ کو دوبارہ آباد کیا اور دلّی میں نقشبندی سرگرمی دوبارہ شروع ہوئی - 1857ء کے بعد ایک لمبے عرصہ تک نقشبندیوں کی سیاسی سرگرمیاں قصّہ پارینہ بن گئیں اور اس دور میں انگریز کا رویہ مسلمانوں کی کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیوں مين شرکت کے خلاف بہت حوصلہ شکن اور جارحانہ تھا -آرتھر بوہلر کہتا ہے کہ ہندوستان کی فضاء مین اس تبدیلی نے نقشبندی مجددی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا
پنجاب ایک نقشبندی مرکز کے طور پر
غدر 1857ء کے بعد 90 سال تک ہندوستان میں نقشبندی مجددی مراکز کا ارتکاز زیادہ تر پنجاب کے علاقوں میں رہا - بلکہ پنجاب کے بعض علاقوں میں تو یہ ارتکاز اس زمانے کے سارے مسلم سماجوں سے زیادہ تھا - لیکن پنجاب کا جو جنوب مغربی علاقہ تھا اور اس کے اضلاع ڈیرہ غازی خان ، مظفر گڑھ ، ملتان اور منٹگمری جو تھے ان میں نقشبندی مراکز نہ تھے بلکہ ان علاقوں کے لوگ 30 ایسی درگاہوں ، خانقاہوں کے ساتھ جڑے تھے جہآں پر سید جلال الدین سرخ پوش بخاری متوفی 1292ء /692ھ کی اولاد مدفون ہے اور ان درباروں کے متولی ، سجادہ نشین جو تھے یہ مزارات ان کی سیاسی اور معاشی طاقت کا جواز تھے -پنجاب کے دیہی علاقوں میں جو مسلم معاشرت تھی ان میں مقامی چھوٹے دیہی مزار اور درگاہ مذھبی طاقت اور روحانی وراثت تک رسائی کا زریعہ بالکل ویسے ہی تھے جیسے بڑے پیمانے پر رسائی کی علاماتیں لاہور میں داتا گنج بخش کا مزار ، پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر اور ملتان میں رکن الدین کا مزار تھے - ان مزارات پر ہونے والی سرگرمیوں میں جو عقیدت مند ہاتھ بٹاتے ان کی شفاء اور نجات کی زمہ داری ان درباروں کے سجادہ نشینوں کے زمہ ہوتی تھی - نقشبندیوں نے ایسے دیہی علاقوں ميں میں درگاہ نہ بنائی جہآں مقامی صوفی درگاہيں پہلے سے موجود تھیں
برطانوی ہندوستان میں یہ معاشی و سیاسی حالات تھے جن کی وجہ سے برطانوی ان کی طرف توجہ دیتے تھے - اگرچہ برٹش کالونیل حکمرانوں نے مغل حکام کی طرح بلاامتیاز درگاہوں والوں کو نوآزنے کا سلسلہ جاری نہ رکھا اور ان کا التفات نقشبندیوں کی جانب کم تھا تو ایسے میں نقشبندی انڈین سماج میں اگر کوئی موثر کردار ادا کرنے کے قابل ہونا چاہتے تھے تو وہ برٹش کالونیل ماسٹرز سے بے نیاز نہیں ہوسکتے تھے تو نقشبندیوں میں پنجاب کے ایک صوفی امام علی شاہ کو انگریزوں نے خدمات کی خوشی میں 500 بیگھے زمین عطیہ کی اور تحریک پاکستان میں پنجاب کے پیران عظام کو لانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے پیر جماعت علی شاہ امام علی شاہ کی اولاد تھے اور پنجاب ک دیہی سماج کی کسان مسلم آبادی پر ان کا اثر اور تعلق بہت گہرا تھا - اور پنجابی دیہی سماج کا جو ڈھانچہ تھا اس سے جڑے آدمی کا برٹش سامراج سے بے نیاز رہنا کارے دارد تھا تو پیر جماعت علی شاہ وسطی پنجاب کے اندر برٹش کے قریب سمجھے جانے والے پیر خیال کئے جاتے تھے اور 1935ء میں جب مسجد صادق گنج کو بچانے کے سوال پر مجلس احرار پارٹی دم سادھے رہی تو اتحاد ملت پارٹی بنی اور پیر جماعت علی شاہ کو اس کا سربراہ چن لیا گیا - اس پر ردعمل دیتے ہوئے دیوبندی مذھبی سکالر ، مجلس احرار کے رکن مولوی حبیب الرحمان نے سوال اٹھایا
ایسا آدمی جو برطانوی حکومت کو اپنا مائی باپ کہتا ہو ، وہ مسلمانوں کی کیسے نمائندگی کرسکتا ہے ؟
نقشبندیوں کا دیہی پنجاب میں نفوز
غدر کے بعد اکثر صوفیآء نے اپنی درگاہیں ہندوستان کے اربن سنٹرز سے باہر قائم کیں تاکہ وہ مرکزی حکومت سے محاز آرائی سے بچ سکیں - اور انہوں نے اپنے گزارے کے لئے دیہاتیوں اور قبائیلوں کی آمدنی پر انحصار کیا - دوست محمد قندھاری 1850ء میں قندھار کے گرد و نواح میں سیاسی اتھل پتھل سے مجبور ہوکر قندھار چھوڑ آئے اور ان کے مرشد نے ان کو نئی خانقاہ ایسے جگہ پر بنانے کو کہا جہاں پنجابی اور پشتو دونوں بولنے والے ہوں - دوست محمد قندھاری نے اپنے مرشد احمد سعید کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان سے 41 میل دور موسی زئی گاؤں میں خانقاہ بنائی اور جلد ہی یہ خانقاہ افغانستان ، پشاور اور - پنجاب سے آنے والے طالب علموں کا مرکز ثقل بن گئی دوست محمد قندھاری کے خلیفہ محمد عثمان متوفی 1896ء نے بھی موسی زئی میں خانقاہ میں روایت کو جاری رکھا اور 1893ء میں انہوں نے میاںوالی پنجاب کے ایک گاؤں کنڈیاں میں نئی خانقاہ بنائی اور یہ خانقاہ بھی پنجاب اور پشتون علاقوں کے ارادت مندوں میں سلسلہ نقشبندیاں کے پھیلاؤ کا سبب بن گئی - عثمان کے جانشین سراج الدین متوفی 1915ء گرمیاں کنڈیاں خانقاہ میں گزارتے اور سردیاں موسی زئی میں بنی خانقاہ میں اور ان کی وجہ سے سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ حیدر آباد سندھ تک پھیل گیا -
نقشبندی مجددی شاخ کے شیوخ نے پنجاب کے اندر تبلیغی مقاصد کے لئے بھی دیہی علاقوں کا رخ کیا اور انہوں نے دیہاتی مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ شعائر اسلام کی پابندی کرنے کی تلقین کی - محی الدین قصوری متوفی 1854ء لاہور میں ، ان کے خلفاء ڈیرہ اسماعیل خان ، بھیرا اور نمک میانی میں ، میاں شیر محمد شرقپوری ارائیں متوفی 1928ء نے خانقاہ شرقپور ، ان کے حلیفہ عمر بیربل سرگودھا ضلع میں اور ان کے سجادہ نشین سید اسماعیل کرمانوالی متوفی 1966ء لاہور میں اور سید حسن کلیانوالی گوجرانوالہ کے گردونواح میں سلسلہ نقشبندیہ کے پھیلاؤ کا سبب بنے اور ان کا ناتہ جاکر دھلی کی 1857ء کی ماقبل نقشبندی مجددی شیوخ کی لڑی سے جاکر ملتا ہے
شمالی پنجاب میں نقشبندی مجددی شاخ اسقدر تیزی سے کیوں پھیلی اس کا ٹھیک ٹھیک جواب تو ملنا کافی مشکل ہے لیکن یہ طے ہے کہ نقشبندی سلسلے کو ہندوستان بھر کے اندر ویسی مقبولیت نہیں ملی جو اسے شمالی پنجاب میں ملی - آرتھر کہتا ہے کہ شیخ احمد سرہندی کی وفات کے بعد اگرچہ ان کے جانشینوں نے ہندوستان کی کلچرل فضا سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کی لیکن وہ بڑی جگہ نہ پاسکے - پنجاب کے شمال میں دیہی علاقوں ميں نقشبندی خانقاہیں ابتداء میں پنجاب کی دوسری خانقاہوں اور درگاہوں کے میلے ، ٹھیلے اور دعوتی کلرفل ماحول سے زرا الگ تھیں اور یہاں زیادہ تر سخت ضابطوں کی پابندیاں رہیں جبکہ نقشبندی صوفی پنجاب کی دوسری درگاہوں پر بھی جاتے تو لئے دئے رکھتے تھے تو اس ماحول میں نقشبندی خانقاہوں نے پنجاب کے دیہی علاقوں میں جو پیر اور مولوی کے کے درمیان دوری تھی اسے ختم کرنے میں کردار ادا کیا اور اس طرح سے پنجابی دیہی سماج میں اپنی جگہ بنالی -
علماء اور نقشبندیہ مجددیہ
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم معاشروں میں عالم / مولوی / ملّا کا اطلاق مفتی ، امام مسجد اور قاضی پر ہوتا رہا ہے - علماء کا حکمرانوں سے تعلق دو طرفہ رہا کہ مسلم حکمران ان کے اداروں کو مالی مدد دیتے ، جاگیریں عطا کرتے اور جواب میں یہ علماء ان حکمرانون کی حکومت کو جائز اسلامی حکومت کی سند دے دیتے - مغل دور میں مغلیہ حکمران اپنی حکمرانی کی سند جواز صوفی اور عالم دونوں سے حاصل کرتے تھے اٹھارویں صدی میں جب مغل سلطنت بکھرنے لگی تو اس کے سب سے بڑے متاثر علماء تھے اور نقشبندی بھی اس کا شکار تھے جن کے ہاں صوفی اور عالم دونوں گھل مل گئے تھے -1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب مغل سلطنت کی آخری نشانی بھی انگریزوں نے ختم کردی تو اس کا سب سے تباہ کن نشانہ علمائے دھلی اور مغلوں کے قریب نقشبندی صوفی تھے اگرچہ کئی سجادہ نشین پھر بھی اپنے علاقوں ميں بااثر رہے لیکن علمائے دھلی اور دہلی کی نقشبندی خانقاہيں تو جیسے کسی آفت کا شکار ہوگئے تھے اور انگریز نے ہندوستان میں اس ثقافتی محور کے ختم ہونے کا سگنل بھی دے ڈالا جس کے گرد ہندوستان میں مغل منصب داری نظام تشکیل پایا تھا جسے اسلامی ںظام کہا جاتا ہے - علمائے دھلی کی بہت بڑی تعداد پنجاب کے دیہی اور قصباتی شہروں کو منتقل ہوگئی -اور کئی اصلاح پسند علماء نے دینی تعلیم کے مدارس بنائے جیسے 1867ء ميں یوپی کے ایک غیر معروف قصبے دیوبند میں دارالعلوم العربیہ کا قیام عمل میں آیا اور دیوبند والوں نے ماضی سے مختلف روش اختیار کی کہ تصوف کے نام پر چشتیہ سلسلے کے اندر موجود ایک اصلاح پسند لہر کو جزوی طور پر اپنایا لیکن مزارات اور سجادہ نشینی سے خود کو دور رکھا اور جبکہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کا بنا تو اس نے خود کو نقشبندیہ مجددیہ ریفارمسٹ صف میں شامل کرلیا اور یہ اصل میں ایک طرف تو عرب کے اندر اٹھنے والی وہابی ازم سے مستعار لئے نظریات کا ملغوبہ تھا تو دوسری طرف یہ نقشبندی و چشتیہ سلسلے کی اصلاح پسند اور زیادہ تنگ شرعی تعبیر کی جانب جھکنے والی روایت کا سمبندھ تھا لیکن پنجاب میں دیہی علماء تھے وہ خود کو نہ تو دیوبندی پوزیشن کے ساتھ رکھ پائے اور نہ ہی وہ ندوۃ العلماء کی پوزیشن کا ساتھ دے پآئے - انہوں نے پنجاب کے اندر پھیلتے ہوئے نقشبندی ریفارمسٹ رجحان میں اپنے لئے کشش محسوس کی اور اس طرح سے پنجاب کے اندر جو " صوفی مولوی " یا " صوفی عالم " کا ایک آمیزہ سامنے آیا وہ بطور بریلوی مسلک کے سامنے آیا - بریلویوں کے ہآن مذھبی تعلیم کے لئے پنجاب میں پیر جماعت علی شاہ کی مالی مدد اور اساتذہ کی فراہمی کی صورت میں لاہور کے اندر دو بڑے مدارس " دارالعلوم نعمانیہ " اور " دارالعلوم حزب الاحناف " بالترتیب 1887ء اور 1924ء کو وجود میں ائے لیکن پنجاب میں دیوبندی روایت سے جڑے علماء کے نقشبندی مجددی سلسلے میں آنے کے شواہد بھی موجود ہیں تو علماء جو پنجاب کے اندر چاہے دیوبندی یا بریلوی روایت سے جڑے تھے اور دوسرے تعلیم یافتہ گروپ وہ نقشبندی سلسلے سے جڑے اور یہ اصل میں ہندوستان کے وہ مسلم اشراف کے اندر مقبول پذیر ہوا جو بار بار " اصلی و شفاف اسلام " کہاں ملے گا جیسے سوال اٹھاتے ہیں
نتیجہ
نقشبندی مجددی صوفیاء کے مغل سلطنت کے زوال تک منگول ترک حاکموں سے گہرے تعلقات قائم ہوچکے تھے - بہت سے مکتوبات ایسے ہیں جو منگول حاکموں کو لکھے گئے اور ان کا ایک جائزہ بتاتا ہے کہ نقشبندی صوفیاء ایک جانب تو مغل حکمرانوں کی مذھبی فرائض بارے فکر مند رہتے تو دوسری طرف وہ ہندوستان میں اسلامی قوانین شریعت کے نفاذ پر زور دیتے تھے اور وہ عام آدمیوں اور امراء کو اپنی زندگیوں ميں شریعت کے مطابق بدلاؤ لانے پر اصرار کرتے اور یہی وہ فیکٹر تھا کہ نقشبندیوں کے رینک میں علماء کی آمد ہوئی تو اس سے جو " صوفی مولوی / عالم برآمد ہوا اس نے نقشبندیوں کی سیاست میں اور دربار میں مداخلت کو اور بڑھایا - اگرچہ وہلر کہتا ہے کہ صوفیاء عمومی طور پر سیاسی کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن نقشبندیوں نے اسے کچھ زیادہ ہی کیا
اٹھارویں صدی میں جب مغل سلطنت زوال کے دور سے گزری تو نقشبندیوں کے ماڈس آپرینڈی میں کافی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں - شاہ ولی اللہ نے اس زمانے ميں ایک طرف تو مغل سلطنت کے بکھرتے شیرازے کو بچانے کی کوشش کی اور یہآن تک کہ احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا جس نے شمالی پنجاب کی اینٹ سے اینٹ بجادی تو اس زمانے ميں شاہ ولی کی جانب سے یہ کوشش کہ "} نصحیت یا وعظ لکھکر حکمرانوں کی اصلاح اور مغل دور پھر پلٹایا جاسکتا ہے ناکام ہوئیں پھر سید احمد بریلی متوفی 1831ء کی مسلح بغاوت بھی ناکام ہوئی تو پھر 1857ء کے بعد ایک لمبے عرصے تک نقشبندیوں نے " سیاسی کردار " ادا کرنے سے فاصلہ رکھا اور یہ تحریک پاکستان تھی کہ نقشبندی ہمیں ایک مرتبہ پھر متحرک نظر ائے
........................................................................................................................
Notes and references given by Arthur F. Buehler
[1] When two dates are juxtaposed, the first is the Islamic lunar hijri date followed by a slash and the Common Era date. All date conversions were calculated with Professor John Woods's "Taqwim" software, using Julian equivalents for the hijri era up to October 4, 1582 and Gregorian equivalents thereafter.
[2] Indo-Muslim sources give Ghujduvani's death date as 575/1179 while Western scholars use 617/1220. For a thorough analysis of the dating difficulties see Fritz Meier, Zwei Abhandlungen uber die Naqshbandiyya (Istanbul: Franz Steiner Verlag, 1994), p.25. At least a few Sufis before Khwaja Ghujduvani were named Khwaja, e.g., Khwaja Yusuf Hamadan (d. 535/1140) who was Khwaja Ghujduvani's spiritual guide (murshid), in addition to Khwaja Ahmad Yasawi (d. 562/1166-67) and Khwaja Abu Muhammad al-Hasan b. al-Husayn al- Andaqi(d.522/1157) who were Khwaja Ghujduvani's fellow disciples.
[3] Dina Le gall states, on the basis of hagiographical sources, that the tariqa was not named after Baha'uddinh Naqshband until roughly one hundred years after his death. See Dina Le Gall, "The Ottoman Naqshbandiyya in the Pre-Mujaddidi Phase: A Study in Islamic Religious Culture and its transmission" ) Ph.D. dissertation, Princeton University, 1992), pp. 12-13.
[4] A fourth stage, the Naqshbandiyya-Khalidiyya named after Maulana Khalid Baghdadi (d. 1282/1827), may also be included. The spread of this branch has been largely limited to the Arab world and Indonesia. See Mahindokht Mu'tamadi, Maulana Khalid Naqshband (Teheran: Pazhang Publishing, 1990). Some modern Naqshbandi writers include two additional stages, from Abu Bakr Siddiq (d. 13/634) to Tayfur ibn ' Isa Abu Yzaid Bistami (d. 261/874) called the Siddiqiyya and form Abu Yazid Bistami to Khwaja 'Abdulkhaliq Ghujduvani (d. 575/1179) called the Tayfuriyya. See Muhammad Nur Bakhsh Tawakkuli, Ta,lhkiralyi' masha'ikb-i naqshband with additions by Muhammad Sadiq Qusuri (Gujarat: Fadl Nur Academy, n. d.), p. 488. This typology has bee duplicated by various later Arab Naqshbandi authors. See Muhammad Parsa, Qudsiyya: Kalimat-i Baba'uddin Naqshband, ed. Ahmad Tahiri (Teheran: Kitabkhana-yi Tahuri, 1975), p. 28 (introduction). There is n historical evidence that any Sufis identified themselves as members of the "Siddiqiyya" or "Tayfuriyya."
[5] See Hamid Algar, "A Brief History of the Naqshbandi Order," in Marc Gaborieau, Alexander Popovic, and Thierry Zarcone, eds., Naqshbandis: Historical Development and Present Situation of a Muslim Mystical Order (Istanbul: Editions Isis, 1990), pp. 13-15.
[6] Hamid Algar, "Political Aspects of Naqshbandi History," in Gaborieau et. al., in Naqshbandis, p. 126.
[7] Muhammad Hashimi Kishmi, Nasamat al-quds, Urdu translation by Mahbub Hasan Wasiti (Sialkot? Maktaba-yi Nu` maniyya, 1990), p. 153 and Babur, Babur nama, 2 vols., English translation by Annette S. Beveridge, The Memoirs of Babur(Delhi: Low Price Publications [1922], 1989), p. 128.
[8] Babur's father, his paternal uncle Sultan Ahmad Mirza, as well as Babur himself respected Khwaja Ahrar but were not formally Ahrar's disciples. Naqshbandi sources sometimes exaggerate Tumurid connections to the Naqshbandiyya, e.g., Khurshid Hasan Bukhari, "Mughal siyasat par awliya'-i naqshband ka athar," Nur al- Islam, awliya'-i naqshband narnber, part 1, vol. 24 (March-April 1979), p. 138. In his memoirs, Babur recounts a dream where Ahrar predicted his successful victory taking Samarqand. See Babur, Babur nama, p. 132. In addition, he relates having especially honoured a visiting grandson of Ahrar, Khwaja 'Abdushshahid (d. 983/1575) (ibid, p. 631). Khwaja 'Abdusshshahid later spent fifteen years in India (966/1558-59 to 982/1574-75) where he reportedly had a following of twelve thousand people before returning to Samarqand in 983/1575. Kishmi, Nasamat, pp. 168-169.
[9] Stephen Dale describes Ahrar's extensive waqf holdings probably obtained in cooperation with Babur's uncle Ulugh Beg Kabuli. One holding was a madrasa, maktab, and a mospue, a base for education and patronage and that could have been one of Baqi Billah's (d. 1012/1603) institutional affiliations when he was in Kabul before migrating to Delhi in 1007-8/1599. Dale, revising earlier studies by S. Athar Abbas Rizvi, Muslim Revival Movements in the 16th and 17th Centuries (Agra: Agra University, 1965), pp. 179-183, has shown the close interrelationship of the Naqshbandiyya and Timurid dynasty in India, particularly in marriage ties between the Ahraris and the Timurids ruling India. Stephen Dale, "The Legacy of the TImurids," in David Morgan and Francis Robinson, eds., The Legacy of the Timurids(Delhi: Oxford University Press for the Royual Asiatic Society, forthcoming). I am particularly grateful for Stephen Dale making this unpaginated pre-publication available and giving me permission to cite. See also Bukhari, "Mughal siyasat," pp. 140-141.
[10] Kishmi, Nasamat, pp. 153-154.
[11] Khwajagi Ahmad, known as Maulana Khwajagi Ahmad b. Jalaluddin (d. 950/1543-44), was a disciple of Muhammad Qadi (d. 911 or 912/1505-7), a famous successor of Ahrar. See Muhammad Ghawthi Mandawi, Adhkar-i abrar, Urdu tar juma-yi gulzar-i abrar, 2nd ed., Urdu translation by Fadl Ahmad Jewari (Lahore: Islamic Book Foundation [1908], 1975), p. 259. It was a common practice of the time to have holy men accompany armies as a kind of "spiritual artillery" to assist in gaining victory. Baba Palangposh (d. 1110-11/1699), originally from Ghujduvan, was a Naqshbandi military pir, who accompanied Ghazi'uddin Khan, an immigrant Mughal general fighting in India. See Simon Digby, "The Naqshbandis in the Deccan in the Late Seventeenth and Early Eighteenth Century A.D.: Baba Palangposh, Baba Musafir and Their Adherents," in Gaborieau et. al., Naqshbandis, pp. 167-207.
[12] N. Elias, ed., English translation by E. Denison Ross, A History of the Mughals in Central Asia Being the Tarikh-i Rashidi of Mirza Muhammad Haidar Dughlat, 2nd ed. (London: Curzon Press, 1972) p. 399 cited by Dale, "The Legacy of the Timurids." Mirza Muhammad was a disciple of Khwawand Mahmud.
[13] Kishmi, Nasamat, p. 161. Both of these forecasts were inerpreted as divine assistance mediated by the Naqshbandis.
[14] Ibid., p. 156.
[15] Ibid., p. 163. ' Abdulhaqq parted ways with Humayun due to some unspecified animosity between them.
[16] Dale, "The Legacy of the Timurids."
[17] Ibid., Khwaja 'Abdushshahid (d. 983/1575-76) was one of Ahrar's grandsons.
[18] Bada'ni, 'Abdulqadir Muntakhab al-tawarikh,, vol. 2, English translation by W.H. Lowe (Delhi: Idarah-i Adabiyat-i Deli [1884-1925], 1973), pp. 246, 275. According to Bada'uni, Sultan Khwaja was the son of Khwaja Khawand Mahmud. Ibid., p. 246. Others say he was disciple of Khwaja Dost whose shaykh was a disciple of Khwaja 'Abdushshahid. See Abu Fadl ' Allami, Akbar nama: History of the reign of Akbar inculuding an account of his predecessors, 3 vols., English translation by H. Beveridge (Delhi: Ess Ess Publications [1897-1921], 1977), 3. 192, 271.
[19] Dale, "The Legacy of the Timurids."
[20] Ibid.,
[21] Sirhindi's name is derived form his birthplace, Sirhind. the ties between Sirhindi's descendants and Afghani affairs is an intriguing subject that requires further research. See 'Azizuddin Wakil Fufalza'i Timur Shah Durrani, 2 vols., 2nd ed. (Kabul: n.p., n.d.), 2.677-688.
[22] Abu'l Hasan Zayd Faruqi, Maqamat-i khayr (Delhi: Dr. Abu'l-Fadl Muhammad Faruqi, 1975), p.344. Members of teh Mujaddidi family, e.g., Sibghatullah Mujaddidi, are still prominent in the contemporary Afghani political scene. For further examples of Afghan-Naqshbandi affinities see Juan Cole, Roots of North Indian Shi 'ism in Iran and Iraq: Religion and State in Awadh, 1722-1859 (Delhi: Oxford University Press, 1989), pp. 230-239.
[23] SHah Zuhur al-Hasan Sharib, Tarikh-i sufiya'-i Gujarat (Ahmadabad: Jamil Academy, 1981), pp. 97-113. His sobriquet is also Khwaja Divana, see 'Abdulhayy b. Fakhruddin al Hasani, Nuzhat al-khawatir wa bahjat al-masami' wa'l-nawazir, 9. vols., 3rd ed. (Hyderabad, Deccan: Osmania Oriental Publications Bureau, 1989), 5.115. The shift in sobriquet reflects a preference of sobriety over intoxication in Sufi identity (dana = = wise and diviana==ecstatic). His son, Abu'l-Hasan b. al-Jamal (d. 1054/1644-45) and Abu'l-Hasan's son Muhammad (d. 1078/1667-68) continued his teaching in Surat. Ibid., pp. 15, 337.
[24] The other is Khwaja Ahrar.
[25] A common misperception among historians of Indian Sufism has been that Baqi Billah was the first Naqshbandi in India, e.g., Abdul Haqq Ansari, Sufism and Shari'ah: A Study of Shaykh Ahmad Sirhindi's Effort to Reform Sufism (Leicester: Foundation, 1986), p. 13. Baqi Billah was not the first spiritual descendant of Ahrar outside of Ahrar's blood line to arrive in India (contrary to Algar, cf. Algar, "A Brief History," p. 19). Non-Ahrari Naqshbandis, i.e., those not of Ahrari lineal descent, had been arriving and initiating disciples long before Baqi Billah arrived in India. The biographical sources mention many spiritual descendants of Muhammad Qadi (d. 903/1497-98 Samarqand), one of Ahrar's important successors, who came to India spreading the Naqshbandiyya, e.g., Maulana Tarsun Qadi (d. 1013/1604-5 Mecca) with disciples in Lahore and Fathpur; Himiduddin Harwi, son of Muhammad Qadi, who died in Surat; and Khawand Mahmud (d. 1052/1642 Lahore) who came to India the same year as Baqi Billah. See Kishmi, Nasamat, pp. 226, 265-266, 242. For more specific information on Khawand Mahmud, see David Mamrel, "Forgotten Grace: Khwaja Khawand Mahmud Naqshbandi in Central Asia and Mughal India," (Ph.D. dissertation, Duke University, 1991).
[26] Kishmi, Nasamat, pp. 153-154.
[27] Wilaya, meaning "proximity" and walaya, meaning "protection and authority," are both derived from the same Arabic root "w 1 y." The meanings have been conflated to a large extent because 1) Both words, when applied to holy persons, usually share both meanings; and 2) Short vowels are not mormally written in Arabic to distinguish between the two words. The convention has been for scholars to use wilaya which I have chosen to translate as "intimacy," a suitable type of proximity for shaykhs not involiving physical distance. The most detailed discussion on these two terms and the notion of wali is Michel Chodkiewicz, Le sceau des saints: Prophetic et saintete dans la doctirne d'Ibn Arabi (Paris: Gallimard, 1986), pp. 35-39.
[28] Mandawi, Gulzar-i abrar, p. 477. He is also known as Mir Murtada Khan.
[29] For more information on Baqi Billah see Muhammad Hashmi ,Kishmi Badakhshani, Zubdat al-maqamat (Isbanbul: Isik Kitabevi, 1977) and Muhammad Sadiq Dihlawi Kashmiri Hamadani, Kalimat al-sadiqin, ed. Muhammad Saleem Akhtar (Lahore: Maktaba 'Ilmiyya Press, 1988), pp. 161-196. ALl of Baqi Billah's writing has been collected in Baqi Billah, Kulliyat-i Baqi Billah, eds, Abu'l-Hasan Faruqi and Burhan AHmad Faruqi (Lahore: Din Muhammadi Press, n.d.). In one of the few biographical compendiums detailing Muslim religious personages of the eleventh/seventeenth entury, Nuzhat al-khawatir, there are 32 prominent ' Naqshbandis from Baqi Billah's lineage mentioned, 26 " Naqshbandi-Mujaddidis, and five with Central Asian shaykhs. See ' Abdulhayy, Nuzhat al-khawatir, vol. 3.
[30] Naqshbandis claim that Sirhindi was imprisoned because of the Shi'i intrigues initiated by Nurjahan, Jahangir's Sh'i wife. Supposedly this measure was precipitated by Sirhindi's failing to perform the necessary court obeisance mandted by court protocol, This controversy was one of many which has involved Sirhindi from his lifetime to the present. Yohanan Friedmann, in his lucid but brief monograph, Shaykh Ahmad Sirhindi: An outline of His Thought and a Study of His Image in the Eyes of Posterity (Montreal: McGill-Queen's University Press, 1971), discusses Sirhindi's self-image, the perceptions of his contemporaries, and how critics and supporters up to the present have interpreted Sirhindi. From a pro. Sirhindi perspective, Muhammad Iqbal Mujaddidi in his Ahwal wa-athar-i 'Abdullah Khushagi Qusuri. (Lahore: Ashraf Press, 1972) analyses critically many of the eleventh/seveteenth-century sources used by Friedmann in addition to adding data from sources not available to Friedmann. The most complete scholarly treatments of Sirhindi are Zawwar Husayn, Hadrat Mujaddid-i Alfi Thani (Karachi: Idara-yi Mujaddidiyya, 1983) and Muhammad Mas' ud Ahmad, Sirat-i Mujaddid-i Alf-i Thani(Karachi: Medina Publishing Company, 1974), pp. 164-214, where he discusses Sirhindi's detention and parole in considerable detail.
[31] Qayyum or qutb al-aqtab is a living person considered to have the highest spiritual rank of all Sufis on earth. After Muhammad Ma'sum, the next two qayyums were Hujjatullah Naqshband (d. 1114/1702) and Muhammad Zubayr (d. 1152/1740), both lineal descendants of Muhammad Ma' sum.
[32] Sirhindi wrote many letters to persons holding a governmental post during the reigns of Akbar and Jahangir. For an analysis of these letters, most of which were written requesting help on hehalf of a third person; see J. G. J. ter Haar, Follower and Heir of the Prophet: Shaykh Ahmad Sirhindi (1564-1624) as Mystic (Leiden" Het Oosters Instituut, 1992), p. 16-17.
[33] Five letters to Auragnzeb are collected in Muhammad Ma'sum, Maktubat-i ma'sumiyya, ed. Ghulam Mustafa Khan, 3 vols. (Karachi, Walend Military Press, n.d.), Letter 64 in volume one [henceforth written 1.64] was written before Aurangzeb became Emperor and 2.5, 3.6, 3.122, 3.221, 3.227, were all written after Aurangzeb became Emperor. A discussion of letters written by Ahmad Sirhindi's descendants to Aurangzeb, his family members, and members of the Mughal Court are collected in S. Athar Abbas Rizvi, A History of Sufism in India: From Sixteenth Century to Modern Century, 2 vols. (New Delhi: Munshiram Manoharlal, 1983), 2.482-491. Due to the Emperor Shahjahan's and Crown Prince Dara Shikoh's (d. 1069-70/1659) devotion to Mulla Shah, a Qadiri shaykh in Srinagar, Ma' sum has no reason to write any letters to them.
[34] Khwaja Sayfuddin, Maktubat-i sayfiyya, compiled by Muhammad A'zam, ed. Ghulam Mustafa Khan (Hyderabad, Slnd: Sa'id Art Press, n.d.), letter 83, pp. 123-124, dited in Mujaddidi, Hasanat, p. 112. Aurangzeb was in Ma' sum's spiritual presence three times according to Ma' sum's son and successor, Sayfuddin. See Sayfuddin, Maktubat, letter 84, p. 123 cited in Mujaddidi, Hasanat, p. 112. Aurangzeb allegedly went to Sirhind and became Ma'sum's formal disciple in 1048/1638. See Kamaluddin Muhammad Ihsan Sirhindi, Rawdat al-qayyumiyya, 2 vols. (Lahore, n.e.), 2.38-39, an unreliable hagiographical source for Naqshbandi history, cited in Mujaddidi, Hasanat, p. 111. Aurangzeb's Naqshbandi connection should not be exaggerated; he visited Burhanuddin Shattari Burhanpuri a few times for spiritual blessing. His request to be buried near the Naynuddin Shirazi Chishti's tomb indicates no particular Naqshbandi affinity toward the latter part of his reign. Carl Ernst perceptively details the biases of Sufi istoriography in his Eternal Garden: Mysticism, History, and Politics at a South Asian Sufi Centre (Albany: State University of New York Press, 1992), pp. 38-61.
[35] Ma'sum, Maktubat, letters 6, 122, 194, 220, 221, 227. Hujjatullah Naqshband, Wasilat al-qabul ila Allah wa'l-rasul (Hyderabad, Sind: Sa' id Art Press, 1963), p. 139 cited in Khaliq Ahznad Nizami, "Naqshbandi Influence on Mughal Rulers and Politics," in Islamic Culture, January, 1965, pp. 49-50.
[36] Ihsan Sirhindi, Rawdat al-qayyumiyya 2.91, cited in Mujaddidi, Hasanat, p. 126. Muhammad Ashraf, by performing supplications (sing. du' a') for Divine intervention on the battlefrield, was supposed to help Aurangzeh emerge victorious. Dara Shikoh took Tantrics and Hindu holy men in addition to Sufis on his Qandahar campaign in 1063/1653 [he lost the battle]. See S.A.A. Rizvi, A History of Sufism in India, 2.414.
[37] Mujaddidi, Hasanat, pp. 126-127. Professor Mujaddidi lists the numerous contemporary sources (without page references) that mention this'all-important intervention by Sibghatullah.
[38] See Mujaddidi, Hasanat, pp. 126-159 for an analysis of the maktubat leterature between Aurangzeh and the Naqshbandis of the time.
[39] A statement noted in a late-Mughal land grant to the shrine of Bahawal Haq at Multan and part of a translated abstract of a copy of a Chaknama dated 25th Rabi' II, 1141 A.H. (Board of Revenue, file 131/1575). Cited in David Gilmartin, Empire and Islam (Delhi: Oxford University Press, 1989),p. 45. Lest "praying for prosperity" be considered simply a literary courtesy (which it might well have been) another alternative is a shaykh praying for ruin. In modern Pakistani politics, legal proceedings were brought aginst the pir of Manki Sharif after he had "tried to restrain the Members of the Electoral College from the free exercise of their right to vote by invoking divine wrath against those who do not support President Ayub." See Pakistan Times 12/21/64 cited by Adrian C. Mayer, "Pir and Murshid: An Aspect of Religious Leadership in West Pakistan," Middle Eastern Studies 3 (January, 1967), p. 166. Later, Presidential Election Rules were revised with the inclusion of a clause prohibiting the threatening of electors with divine displeasure. See Pakistan Times 1/12/65. Ibid., p. 169 n. 15.
[40] Although not explicitly stated, many of these Afghans were probably armed. Ghulam- Sarvar Lahuri, Khazinat al-asfiya', 2 vols. (Lucknow: Nawal Kishor Press. 1864), 1.630-631.
[41] For further information on this subject see J.M.S. Baljon, Religion and Thought of Shah Walt Allah Dihlawi, 1703-1762, (Leiden" E.J. Brill, 1986).
[42] Annemarie Schmmel, Pain and Grace: A Study of Two Mystical Writers of Eighteenth-Century Muslim India (Leiden: E.J. Brill: 1976), p. 42.
[43] He was first initiated into the Naqshbandiyya by his father, Shaykh 'Abdurrahim (d. 1131-32/1719) who had received instruction from four different Naqshbandi shaykhs: 1) Sayyid Abdullah ' Akbarabadi, a spiritual great-grandson of Ahmad Sirhindi through Adam Banuri (d. 1053/1644), 2) Amir Abu Qasim Akbarabadi, the spiritual grandson of Abu'! Ula Akbarabadi (d. 1061/1651), a lineal descendant of 'Ubaydullah Ahrar, 3) Khwaja Khurd, the -son of Bali Billah, and 4) Amir Nurul-' ula (d. 1081/1671), the son of Abu'l-'Ula Akbarabadi. See Shah Waliullah, Intibah fa salasil awliya' Allah, (Lyallpur: Panjab Electric Press, n.d.), p. 31. Shah Waliullah wrote a book about his father, and his other teachers, Anfas al-'arifin (Multan: Islami Kutubkhana, n.d.). For more information on the non-Mujaddidi branch of an Ahrari, Abu'l-'Ula, see Abu'l-'Ula'i Ahrari, Israr-i Abul Ula (Agra: Shamsi Machine Press, n.d.), pp. 5-8. This non-Mujaddidi branch still has functioning Sufi hospices in Gaya, Bihar and Agra. At least through the nineteenth century, descendants of Khwaja Ahrar were sajiadanishins at the Sufi hospice in Agra (contrary to Algar's assertion that the physical descendants of Ahrar in India "died out in the eleventh/seventeenth century," Algar, "A Brief History," p. 19) Initiation from his father involved no Naqshbandi-Mujaddidi spiritual practices; Shah Waliullah mentions that he learned these practices from Mulla Balil Kakyani, a spiritual grandson of Muhammad Ma' sum. The scholar/mystic Abu Tahir Muhammad (d. 1145-46/1733) initiated Shah Waliullah into the Naqshbandiyya in Medina. See Baljon, Religion and Thought, pp. 5-6. he also initiated him into the Shadhiliyya, Shattariyya, Suhrawardiyya, and Kubrawiyya. Abu Tahir had three Naqshbandi affiliations:. 1) His father, Ibrahim al-Kurani (d. 1101-2/1690), who was a non-Ahrari spiritual descendant in 'Abdurrahman Jami's (d. 898/1492) chain, 2) Ahmad Nakhli (d. 1130/1717-18 Mecca) of Ahrari lineage, and 3) 'Abdullah Basri, the spiritual grandson of Tajuddin Sanbhali, s senior khalifa of Baqi Billah.
[44] Ibid., p. 85. Later he makes favourable, inclusive comments about other Indian Sufi groups, Chishtiyya, Suhrawardiyya, and Qadiriyya.
[45] 'Abdulhayy, Nuzhat, vol. 5. p. 22, Shah Amir Abu'l-'Ula'i AHrari, Israr, p. 21. There are presently hospices of Abu'l-' Ula's lineage in gaya, Bihar, and Agra. Ji Hli Abu ' Ula' i (d. 1250/1834-35) had many didciples in Hyderabad, Deccan. See 'Ata' Husayn, Kayfiyat al-'arifin, (Gaya: n.p., 932), pp. 105-106. Successors of 'Ata' Husayn (d. 1311/1893-94 in gaya), e.g., Mir Ashraf 'Ali, transmitted the teachings to Dacca, Bombay, and Hyderabad. There have been hospices in these last two locations.
[46] Khwaja Khurd, Baqi Billah's younger son studied with Ahmad Sirhindi, see Shah Waliullah, Intibah, p.31. 'Abdulhaqq Muhaddith Dihlawi's son, Nurulhaqq Mashraqi (d. 1073/1662), instead of following Baqi Billah's senior disciples, became a- disciple of Muhammad Ma'sum. Rahman 'Ali, Tadhkira-yi 'ulama'-i Hind,(Lucknow: Nawal Kishor Press, 1 1894), p. 246.
[47] For further information on Khawand Mahmud, see David Damrel, "Forgotten Grace." For additional information on the Deccan Naqshbandi, Baba Musafir, see Gigby, "The Naqshbandis in the Deccan," pp. 167-207.
[48] The comparison of Amir Hasan Sijzi's Fawa'id al fu'ad and Sirhindi's Maktubat is on the basis of subsequent popularity. Sijzi pioneered the genre of malfiazat in India while Sirhindi continued the maktubat tradition, following the precedents of Sharafuddin Yahya Maneri (d. 782/1381) and Ashraf Jahangir Simnani (d. 829/1425). See Bruce Lawrence, Notes from a Distant Flute: The Extant Literature of pre-Mughal Indian Sufism (Teheran: Imperial Iranian Academy of Philosophy, 1978), pp. 53-55; 72-76. For a discussion of malfuzat literature in India, see K.A. Nizami's introduction to Nizamuddin Awliya', Fawa 'id al-fu 'ad, compiled by Amir Hasam Sijzi, English translation by Bruce Lawrence, Morals of the Heart (New York: Paulist Press, 1992), pp. 43-49. The letters of Sirhindi's son, Muhammad Ma'sum, have also been collected in a three-volume work, Maktubat-i ma'sumiyya. Numerous Naqshbandis and other Indian Sufis have had their letters published, although scholars of Indian Sufism have rarely consulted this invaluable source material.
[49] For translations see Friedmann, Shaykh Ahmad Sirhindi, p. 1, notes 3, 4, 5, and Ansari, "A Select Bibliography," The latest publication of Nur Ahmad's edition of Maktubat-i Imam-i Rabbani is by University Book Depot in Peshawar, Pakistan, in 1991.
[50] This is Damrel's argument for Khawand Mahmud's Naqshbandi lineage failing to prosper. See David Damrel, "The Naqshbandi Order in Transition: A Central Asian Shaykh in Mughal India," (unpublished paper given at MESA meeting, San Antonio, Texas, 11/11/90). Digby notes that Baba Shah's Naqshbandi lineage did not survive pat the twelfth/eighteenth century because Baba Shah's hospice appealed to Turkish immigrants and did not adapt to Indian conditions, See Digby, "The Naqshbandis in the Deccan," pp. 204-205.
[51] Home political proceedings cited by Warren Fusfeld, "The Shaping of Sufi Leadership in Delhi: The Naqshbandiyya-Mujaddidiyya, 1750-1920" (Ph.D. dissertation, University of Pennsylvania, 1981), p. 53.
[52] Fusfeld, "The Shaping of Sufi Leadership," pp. 243-248. In addition, Fakhruddin Jahan Chisti Dihlawi's (d. 1199/1785) khanaqah also was forced to close. Ghulam Muhyiuddin Qusuri, •Malfuzat-i sharif with introduction and footnotes by Muhammad Iqbal Mujaddidi, Urdu translation by Iqbal Ahmad Faruqi (Lahore: Al-Ma' arif press, 1978), p. 12.
[53] This speculative statement can only be based on extant hagiographic literature of the period, facilitated in part by the flourishing Urdu publication boon of the latter nineteenth— and early twentieth-century India. See Barbara Metcalf, Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900 (Princeton Princeton.Univerity Press, 1982), pp. 198-200. In Indonesia the. Naqshbandiyya were also the most popular Sufi group during the same period. Perhaps there were more Naqshbandi centres and disciples in Indonesia than in the Panjab, but since Sufisrn in Indonesia does not have as extensive a hagiographical tradition as the Subcontinent., precise comparison is impossible.
[54] Jhang District Gazetteer, 1908, p. 58, cited in Gilmartin, Empire and Islam, p. 43. There were at least thirty such shrines by the turn of the twentieth century. the question of a pir's spiritual power being exercised in a specific geographical area (walayat) began in fifth/eleventh-century Khorasan and became a recurring phenomenon in later Indian Sufi literature. Not only was walayat impossible to share with non-Muslim holy persons, but it was difficult for two powerful shaykhs to co-exist in the same vicinity. See Simon Digby, "Encounters with Jogis in Indian Sufi Hagiography," (unpublished paper, given at University of London, 1/27/79).
[55] The former Sikh government of the Panjab also conformed to this practice. See B.N. Goswany and J.S. Grewal, The Mughal and Sikh Rulers and the Vaishnavas of Pindori (Simla: Indian Institute of Advanced Study, 1969). For examples of British colonial policy using Sufis' local political authority, see Gilmarin, Empire and Islam, pp. 46-52. The British supported Sufis solely for political purposes and did not share the paradigm of divine intervention.
[56] This land, however, was not under Naqshbandi control until Amiruddin (d.1331/1913) came and courageously asserted his authority. It is said one of Amiruddin's belligeraent adversaries among the villagers paid for this opposition to the shaykh by contracting a serious illness. See Muhammad Ibrahim Qusuri, Khazina-yi Ma'rifat (Lahore: Naqush Press, n.d.), p. 97 One ghuma'o is between .2 and .75 of a acre, see John T. Platts, A Dictionary of Urdu and Classical Hindi and English, (New Delhi: Munshiram Manoharlal, 1977), p. 935.
[57] Ihsan, 9/23/35 Press Branch file #8331, vol. 7a, cited in Gilmartin, Empire and Islam, pp. 104-105. Gilmartin's book discusses rural pirs in pre-independence Panjab.
[58] Muhammad Isma'il, Tajalliyat al-dostiyya, pp. 65-66.
[59] Mahbubullahi, Tuhfa-yi sa 'diyya, (Lahore: Al-Hamra Art Printers, 1979), pp. 40-42.
[60] The train station at Khundian is about a mile from the second Khanaqah. In comparison, the original khanaqah at Musa Zai even today is a bumpy thirteen-hour bus ride form Peshawar.
[61] Zawwar Husayn (d. 1400/1980) and his disciple, Dr. Ghulam Mustafa Khan, two prolific Naqshbandi scholars form the Sind, are siritual descendants fo Sirajuddin.
[62] One exception is 'Abdulkarim (d. 1355/1936), whose hospice was in Rawalpindi.
[63] Muhammad Ibrahim Qusuri, Khazina-yi ma'rifat, p. 61. These hospices were still functioning in 1977.
[64] A biradari is a Panjabi clan grouping within which most Panjabis marry. the Arains were one of these clans who the British classified as an "agricultural tribe." See Gilmartin, Empire and Islam, pp. 89-95.
[65] Tawakkuli, Tadhkira-yi masha'ikh-i naqshband, p. 550. Muhammad 'Umar's father was Ghulam Murtada Birbali (d. 1321/1903), the spiritual grandson of Muhyiuddin Qusuri.
[66] Muhammad 'Umar Birbali, Inqilab al-haqiqat (Lahore: Aftab-i 'Alam Press, n.d.) For information concerning Muhammad Ismail see Nur Ahmad Maqbul, Khazina-yi karam, (Karachi: Kirmanwala Publishers, 1978), and for Nurul-Hasan see Munir Husayn Shah, Inshirah al-sadur bi-tadhkirat al-nur (Gujarat: Small State Industries, 1983).
[67] Gilmartin, Empire and Islam, p. 53.
[68] See Metcalf, Islamic Revival.
[69] Pakistani scholars have informed me that in the Panjab. the Naqshbandiyya and Qadiriyya have tended to attract more ulama than other tariqas. The Chishtiyya -and Suhrawardiyya resolutely followed Hanafi fiqh but as a rule did not interpret Islamic behaviour as strictly as the Naqshbandis who forbid the practices fo sama' . According to a two-volume biographical work of non-Barelwi ulama in nineteenth and twentieth-century Panjab, Safir Akhtar, Tadhkira-yi 'ulama '-i Panjab, 2 vols. (Lahore: Za'id Bashir Printers, 1980), out of 173 ulama with a specified Sufi-affiliation, 42% were Naqshbandis, 35% Chishtis, 20% Qadiris, and 2% Suhrawardis. The Naqshbandi ulama were much more prominent among Lahori Barelwi ulama.
[70] See Metcalf, Islamic Revival, pp. 296-314.
[71] Iqbal Ahmad Faruqi, Tadhkira-yi abl-i sunnat wa-jama at Lahur-(Lahore: Maktaba-yi Nabawiyya, 1987), p: 272, and Gilmartin, Empire and Islam, pp. 60-61. Of twenty-three prominent Sufi-affiliated Barelwi ulama in British colonial Lahore, there were fourteen Naqshbandis, six Chishtis, and three Qadiris. See Faruqi, Tadhkira-yi ahl-i sunnat.
[72] See Algar, "Political aspects," pp. 123-152, which discusses this question in detail.
[73] Shah Faqirullah (d. 1195/1781) and Shah Waliullah were anong the last Nqashbandis in northern India to continue the Naqshbandi practice of advising rulers. For additional information concerning Shah - Waliullah's letters, see Khaliq Ahmad Nizami, ed., Shah Waliullah Diblawi ke siyasi maktubat(Delhi: Nadqat al-Musannifin, 1969). For letters by Faqirullah to Shah Abdali, see Faqirullah Shikarpuri, Maktubat-i Faqirullah, ed. Maulwi Karam Bakhsh (Lahore: Islamiyya Steam Press, n.d.), letters: 18, 29, 57, 66; for communications with the Shah Abdali's chief minister, Shall Wali Khan, letters 56, 69; for letters to Qadi Idris, a grandson of Ahmad Sirhindi and Shah Abdali's chief mufti, letter 19. As far as Indian Muslims were conerned, these letters were of little avail in preventing the pillaging by Shah Abdali's armies.
[74] Credal affirmation ('aqa'id) are often written in dogmatic lists that Muslims are expected to accept as true. These lists vary from time to time, between Sunni and Shi'i, and between the various Shi'i groups. For the early Sunni formulations of credal dogma see A.J. Wensinck, The Muslim Creed: Its Genesis and Historical Development (Cambridge: Cambridge University Press, 1932). the goal of these affirmations is to make one's inner faith (irnan), the quality of religiousness, outwardly tangible.
[75] Muslims chose other avenues to individualise Islamic identity which also allowed them to participate in the larger geographical and historical Islamic community. One alternative was to identify Islam totally on the basis of Islamic scriptural norms, i.e., the Qur'an and Hadith. Although considerably less popular in Muslim India, these scripturalist groups, pejoratively termed "Wahhabis" by Sufis, have had an influence on the religious life of Indian Muslims. Their definition of Sunni orthodoxy based on scripture and a totally transcendent God is diametrically opposed to Sufis who espouse a mediatory paradign involving the personal guidance of pirs with or without the practice of a contemplative discipline. For a description of such a group, the Ahl-i hadith, a scripturalist-minded organisation in northern India, See Metcalf, Islamic Revival, pp. 264-296.
[76] Speaking in cotemporary times, the late Fazlur Rahman noted that many people nearly equate a person without a pir (be pira) to a “godless person.” See his Islam, 2nd ed. (Chicago: University of Chicago press, 1979), p. 154. In Urdu the adjective “be pur” (lit. without pir) commonly assumes a meaning of pitiless, cruel, or vicious